19 اگست کو انسانی ہمددردی کا بین الاقوامی دن منایا گیا۔ ہر سال یہ دن انسانی ہمدردی کے ان کارکنوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے جو کرہ ارض پر انتہائی سخت بحرانوں میں گھرے ہوئے ہزاروں انتہائی مایوس لوگوں کی مدد کے دوران ہلاک ہوئے۔ اس سال جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں اس عالمی ادارے پر 19 اگست 2013 کو کئے جانے والے بم دھماکوں کی 15 ویں برسی کے موقع پر ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی ۔ اگرچہ یہ اس عالمی ادارے پر بڑے پیمانے پر کیا جانے والا پہلا دہشت گرد حملہ تھا تاہم یہ آخری حملہ نہیں تھا۔
اس موقع پر ایک ویڈیو میں عراق میں اقوام متحدہ کے خصوصي نمائندے سرگئی ویئرو ڈی میلو کے ترجمان احمد فوزی نے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کے چہرے ہیں۔ ان کا پس منظر مختلف ہے لیکن ان سب کا ایک ہی وژن ہے۔ وہ ہمارے اصولوں سے وابستہ تھے اور انہوں نے پوری زندگی ہمارے اصولوں پر عمل درآمد کی کوشش کی جن میں پر تشدد اور مستقل طور پر رخنہ اندوزی کی گئی ۔
یہ مختصر ویڈیو 2003 میں اس وقت بنائی گئی تھی جب بغداد کے کینا ل ہوٹل پر کیے جانے والے ہولناک دہشت گرد حملے کے زخم ابھی تازہ تھے ۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والے 22 لوگوں میں عراق میں اقوام ٕمتحدہ کے خصوصی نمائندے سرگئی ویئرو ڈی میلو بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ان کے ترجمان احمد فوزی جو اس واقعے میں زندہ بچ گئے تھے کیوں کہ وہ مشن میں تھے۔
اس سال برسی کے موقع پر ان تقربیات کے نگران کے طور پر انہوں نے زندہ بچ جانے والوں اور ان متاثرہ افراد کے گھرانوں کے ساتھ جن کے دو بچے حملہ آور کی گولیوں سے ہلاک ہوئے تھے، اپنےغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زخم باقی رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ درد کی شدت کم ہو جاتی ہے لیکن یہ کبھی ختم نہیں ہوتے ۔
پندرہ سالہ مطیع سلیم کنعان بغدا د میں اپنےوالدجین سلیم کنعان کے ہلاک ہونے کے چند ہفتے بعد پیدا ہوئے تھے ۔ و ہ اب اپنے والد سے بات کرتے ہیں جن کے بارے میں انہیں کبھی بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔ اور وہ ا نہیں بتاتے ہیں کہ وہ انہی کی طرح زبانوں، کھیل اور ٹکنالوجی سے محبت کرتے ہیں ۔
میری پرورش احترام، دوستي، یگانگت اور انصاف کی اقدار کے ساتھ کی گئی ہے ۔ یہ اقدار آپ کی تھیں اور یہ ہی وہ اقدار تھیں جن کی وجہ سے آپ اتنی بھر پور اخلاقیات کے حامل تھے ۔ میں اکثر آسمان کو دیکھتا ہوں اور آپ کے بارے میں سوچتا ہوں خاص طو ر پر جب کوئی خاص موقع آتا ہے ۔ آج میں ان تمام لوگوں کو یہاں اکٹھا ہوتے دکھ کر اور آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو یاد کرتا دیکھ کر فخر محسوس کر رہا ہوں ۔ میں اپنی زندگی بھر پور طریقے سے گزارتا رہوں گا ۔ اپنے خاندان سے اپنے دوستوں سے محبت کرتا رہوں گا اورآپ کو ہمیشہ ا پنے دل میں رکھوں گا۔
پندرہ سال قبل بغداد میں وہ دن کیرول رے کے ذہن میں اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ بھر پور طریقے سے نقش ہے ۔ ان کاکہنا ہے کہ ہر طرف ابہام تھا، لوگ گلے ملے، آنسو بہائے گئے، شیشوں کی کرچیاں ابھی تک بالوں سے برش کر کے نکالی جا رہی تھیں۔ اقوام متحدہ لوگوں کو فلائٹس کے ذریعے ان کے وطن پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ ہم الگ ہونا نہیں چاہتے تھے لیکن کاؤنسلرز ہمیں بتا رہے تھے کہ یہ ہی ہمارے لیے سب سے بہتر تھا۔
رے کہتے ہیں کہ زندہ بچ جانے والے اس إحساس جرم کے ساتھ زندہ ہیں کہ وہ بال بیکا ہوئے بغیر وہاں سے چلے آئے ۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے ڈائریکٹر جنرل مائیکل مولرکہتے ہیں کہ عراق میں اس خوفناک سہ پہر کو ہونے والا واقعہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے، لیکن اس کے بعد اقوام متحدہ پر دوسرے حملے ہوئے۔
2007 کے آخر میں الجیرز میں ہمار سات رفقائے کار ہلاک ہوئے۔ صرف گزشتہ سال 138 امن کار اور انسانی ہمددردی کے 139 کارکن ہلاک ہوئے اور یہ مسلسل پانچواں سال ہے کہ جب انسانی ہمددردی سے متعلق ایک سو سے زیادہ کارکن اپنے کام کے دوران ہلاک ہوئے ۔
اینڈرین ڈی میلو کو جو اس وقت 23 سال کے تھے جب ان کے والد سرگیو ہلاک ہوئے، وہ واقعات اچھی طرح یاد ہیں ۔
جب ہمیں حملے کے بارے میں بتایا گیا تو میں اور میرا خاندان تیزی سے گھر پہنچا ۔ کچھ ہی دیر بعد ہمیں ٹی وی پر سی این این کی لائیو نشریات میں ہمیں اطلاع دی گئی کہ ہمارے والد ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ چکے ہیں ۔اس سال مارچ میں میرے والد ستر سال کے ہو جاتے ۔ وہ غالباً ریٹائر ہو چکے ہوتے ۔ وہ اپنی چار پوتیوں اور اپنے پوتے کے ساتھ پر امن لمحات سے لطف اندو ز ہو رہے ہوتے۔
2008 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے امن کے نصب العین کے ساتھ اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے تمام لوگوں کو خراج پیش کرنے کے لیے 19 اگست کو انسانی ہمددردی کا عالمی دن قرار دے دیا ۔ ہم صرف یہ تصور ہی کر سکتے ہیں کہ اگر انہیں زندہ رہنے کا موقع دیا جاتا تو وہ یہ جرأتمند اور پر عزم لوگ اس مقصد کے لیے مزید اور کیا کچھ کر چکے ہوتے۔
فیس بک فورم