رسائی کے لنکس

غزہ میں فلسطینیوں کی گرفتاریوں بھوک پیاس اور ذلت آمیز سلوک کی رپورٹس


14 دسمبر 2023 کو جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں، شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں،اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی میں کمال عدوان ہسپتال کے قریب ہتھیار بردار کچھ مردوں کو ہاتھ اوپر اٹھائےباہر جاتے دکھایا گیا ہے۔فوٹو رائٹرز
14 دسمبر 2023 کو جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں، شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں،اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی میں کمال عدوان ہسپتال کے قریب ہتھیار بردار کچھ مردوں کو ہاتھ اوپر اٹھائےباہر جاتے دکھایا گیا ہے۔فوٹو رائٹرز

اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کی پٹی میں سینکڑوں فلسطینیوں کی پکڑ دھکڑ کی مہم میں،خاندانوں کو جدا کیا ہے ، اور کچھ مردوں کو کسی حراستی مرکز میں لے جانے کے لیے ٹرکوں پر سوار کرنے سے پہلے نیم برہنہ ہونے پر مجبور کیا گیا ۔ انہیں ان مراکزمیں گھنٹوں اور کچھ واقعات میں کئی دن رکھا گیا ۔

ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ معلومات انسانی حقوق کے سر گرم کارکنوں، گرفتار کیے جانے والوں کے رشتے داروں اور رہا ہونے والے قیدیوں نے خود فراہم کیں۔

جبلیہ اور غزہ شہر کے مضافات میں شہری پناہ گزین کیمپ ، بیت لاہیا کے تباہ شدہ قصبے میں گرفتار فلسطینیوں نے بتایا کہ انہیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر کھلےٹرکوں میں کھچا کھچ بھر کر لے جایا گیا تھا ۔ کچھ نے کہا کہ انہیں تقریباً برہنہ حالت میں اوربہت کم پانی کے ساتھ ایک نامعلوم مقام پر کسی کیمپ میں لے جایا گیا۔

بیت لاہیا میں گرفتار کیے جانےوالے ایک تیس سالہ کمپیوٹر انجینیر ابراہیم لباد نے بتایا کہ ہم سے مویشیوں جیسا برتاؤ کیا گیا ۔ حد تو یہ تھی کہ انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر نمبر لکھے ۔

انہوں نے بتایا کہ انہں سات دسمبر کو بیت لاہیا میں خاندان کے درجنوں دوسرے افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا اور رات بھر قید رکھا گیا تھا۔ ہم ان کی نفرت کو محسوس کر سکتے تھے۔

اس اثنا میں رائٹرز نے اسرائیلی فوج کی جاری کی ہوئی ایک تصویر شئیر کی ہے۔ 14 دسمبر 2023 کو جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں، شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں، اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان جاری تنازعہ کے درمیان، اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی میں کمال عدوان ہسپتال کے قریب ہتھیار اٹھائے ہوئے کچھ مردوں کو بظاہر باہر جاتے دکھایا گیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں زمینی کارروائی کے دوران شمال میں، جہاں فلسطینوں کی آبادی کے بہت بڑے حصے کو انخلاپر مجبورہونا پڑا تھا،اپناکنٹرول مضبوط کرنے اور حماس کی کارروائیوں کے بارے میں انٹلیجنس معلومات اکٹھی کرنے کے لیے پکڑ دھکڑ مہم کو ایک بڑھتےہوئے حربے کے طور پر اختیار کیا ہے ۔

غزہ میں اسرائیل نے اپنی فوجی کارروائیاں سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد شروع کی ہیں جس میں اسرائیل کے مطابق عسکریت پسندوں نے 1200 کے لگ بھگ لوگوں کو ہلاک اورتقریبأ 240 کو یرغمال بنایا تھا۔

ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق مبینہ بد سلوکی کے بارے میں سوال کے جواب میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ گرفتار کیے جانے والوں کے ساتھ ضابطے کے مطابق برتاؤ کیا گیا اور انہیں کافی خوراک اور پانی دیا گیا تھا۔

فوج کے ترجمان رئیر ایڈمرل ڈینئیل ہگاری نے کہا کہ مر دوں سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور پھر انہیں لباس پہننے کے لیے کہا جاتا ہے ، اور یہ کہ اگر کچھ واقعات میں ایسا نہیں ہوا تو فوج یہ یقینی بنائے گی کہ آئندہ ایسا نہ ہو ۔

ہگاری نے کہا کہ جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتاہے کہ ان کے حماس سے رابطے ہیں ، انہیں مزید پوچھ گچھ کے لیے دوسرے مقام پر لے جایا جاتا ہے ، اور اب تک حماس کے درجنوں ارکان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری، فائل فوٹو
اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری، فائل فوٹو

سوشل میڈیا پر ایسے فوٹو اور ویڈیوز کے وائرل ہونے کے بعد اشتعال پھیل گیا جن میں فلسطینی مردوں کو ، صرف انڈر وئیر میں، سڑک پر گھٹنے ٹیکے سر جھکائے اور ہاتھوں کو کمر کے پیچھے بندھی حالت میں دکھایا گیا تھا۔

گرفتار کیے گئے فلسطینیوں کے 15 خاندانوں کے انٹرویو ز کےمطابق، فلسطینی اسے انتہائی بے توقیری سمجھتے ہیں۔۔ ان گرفتار کیے گئے لوگوں میں بارہ سال کے لڑکوں سے لے کر ستر سال تک کےمعمر افراد شامل تھے ، اور ان میں وہ عام شہری بھی شامل تھے جو جنگ سے پہلے عام زندگیا ں گزار رہے تھے۔

جنیوا میں قائم ادارےیورو ۔ میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کے بانی رامے عبدو نے بتایا کہ ان کا اندازہ ہے کہ اسرائیلی فورسز نے شمالی غزہ میں کم ا ز کم 900 فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے۔ اس ادارے نے گرفتاریوں کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے پر کام کیا ہے۔

اس ادارے نے جو شواہد اکٹھے کیے ہیں ان کی بنیاد پر گروپ کا خیال ہے کہ اسرائیل نے غزہ سے گرفتار کیے جانے والے بیشتر قیدیوں کو محصور شہر کے بالکل شمال میں زیکم کے فوجی اڈے پر رکھا ہے۔

اسرائیلی فوج نے اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ ان قیدیوں کو کہاں لے جایا گیا تھا۔

بیت الاہیہ اور جبلیہ میں اسرائیل نے کئی دن تک بھاری مشین گنوں سے گولہ باری کی جس دوران فلسطینی خاندان کئی دن تک بجلی ، پینے کے پانی ، ایندھن یا کمیونی کیشنز اور انٹر نیٹ سروس کے بغیر پھنسے رہے ۔

بیت لاہیہ میں اسرائیلی بمباری کے بعد ایک فلسطینی ملبے کے پاس کھڑا ہے، فوٹو اے پی، 28 نومبر 2023
بیت لاہیہ میں اسرائیلی بمباری کے بعد ایک فلسطینی ملبے کے پاس کھڑا ہے، فوٹو اے پی، 28 نومبر 2023

غزہ میں انسانی حقوق سے متعلق فلسطینی سنٹر کے ایک وکیل ، راجی سورانی نے بتایا کہ اس مقام پر تین چار ہفتوں سے ہر جگہ لاشیں بکھری ہوئی ہیں کیو ں کہ انہیں دفن کرنے کے لیے کوئی ان تک نہیں پہنچ سکتا جس کے بعد انہیں کتے کھا جاتے ہیں۔

سورانی نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے غزہ سے مصر کے ساتھ جنوبی سرحد پر جاتے ہوئے درجنوں لاشیں دیکھیں۔

فلسطینیوں نے بتایا کہ اسرائیلی فوجی ہر دروازے پر کتوں کے ساتھ آتے تھے ، اور لاؤڈ اسپیکرز پر خاندانوں سے باہر آنے کا کہتے تھے ۔ بیشتر واقعات میں خواتین اور بچوں سے کہا جاتا تھا کہ وہ کسی پناہ کی تلاش میں کہیں دور چلے جائیں۔

رہا ہونے والے کچھ قیدیوں نے اپنے ساتھ ہونے والے تضحیک آمیز سلوک کے بارے میں بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے ان کے تقریبابرہنہ حالت میں فوٹو لیے جو بعد میں وائرل ہوئے۔

کچھ کا اندازہ تھا کہ انہیں کئی میٹر تک کے سفر کے بعد کسی ساحل پر ٹھنڈی ریت پر ڈمپ کیا گیا تھا ۔

رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں نے کہا کہ انہیں رات کے وقت سخت سردی میں رکھا جاتا اور بار بار حماس کی سر گرمیوں کے بارے میں پوچھاجاتا جن کا بیشتر کوئی جواب نہیں دے سکتے تھے۔ اگر کوئی اپنی باری سے پہلے بولتا تو فوجی انہیں ذدو کوب کرتے اور پاؤں کی ٹھوکر سے ان کے چہروں پر ریت پھینکتے ۔

متعدد فلسطینیوں نے جنہیں 24 گھنٹے یا اس سے کم گھنٹوں کے لیے حراست میں رکھا گیا ، بتایا کہ انہیں کھانے کو کچھ نہیں دیا گیا اور لگ بھگ 300 زیر حراست لوگوں کو ڈیڑھ لیٹر پانی کی تین بوتلیں شئیر کرنے پر مجبور کیا گیا۔

اے پی کے مطابق رہا کیے گئے فلسطینیوں نے بتایا کہ گھر واپسی بذات خود خوفناک تھی ۔

اسرائیلی فوجی قیدیوں کو آدھی رات کے بعد ان کے لباس ، فون یا شناختی کارڈز کے بغیر اس مقام کے قریب چھوڑ جاتے جو بظاہر اسرائیل کے ساتھ غزہ کی شمالی سرحد تھی۔

انہیں حکم دیا گیاکہ وہ تباہ شدہ عمارتوں کےملبے سے پیدل گزر کر جائیں جب کہ سڑک کے ساتھ ساتھ ٹینک اور چھتوں پر اسنائپرز متعین ہوتے تھے۔

رہاہونے والے ایک ایسے ہی فلسطینی شہری حسن ابو شدخ نے کہا کہ یہ سزائے موت کے مترادف تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے 43 سالہ بھائی رمضان ،18 سالہ بشار اور 38 سالہ کزن نسیم بغیر جوتوں کے ملبے پر پیدل چل کر گھر تک گئے جس سے ان کے پاؤں لہو لہان ہو گئے ۔

انہوں نے بتایا کہ نسیم جو ایک کاشتکار تھے، راستے میں ایک اسرائیلی اسنائپر کہ گولی سے ہلاک ہو گئے اور انہیں اپنے کزن کی لاش سڑک پر چھوڑ کر جانے پر مجبور کیا گیا ۔

اسرائیلی عہدے داروں کاکہنا ہے کہ ان کے پاس شمالی غزہ میں باقی رہ جانے والے فلسطینیوں پر شک کرنے کا جوا ز ہے کیوں کہ مشرقی غزہ شہر میں جبلیہ اور شجائیہ جیسے علاقے وہ مقامات ہیں جو حماس کے مضبوط گڑھ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کی اجتماعی گرفتاریوں کی چھان بین ہونی چاہیے ۔ کیوں کہ یہ ایک نا قابل برداشت صورتحال ہے۔

ہیومین رائٹس کے ریجنل ڈائریکٹر عمر شاکر کا کہنا ہے کہ ، ۔عام شہریوں کو صرف انتہائی ضروری اور سیکیورٹی کی ناگزیر وجوہ کی بنا پر گرفتار کیا جانا چاہئیے۔

اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG