رسائی کے لنکس

حسین حقانی کو وطن لانے میں ناکامی پر عدالتِ عظمیٰ برہم


حسین حقانی (فائل فوٹو)
حسین حقانی (فائل فوٹو)

بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے امریکی حکام کو حسین حقانی پر چار ارب روپے سے زائد کی بدعنوانی کے الزامات کے بارے میں بھی آگاہ کیا جس پر امریکی حکام نے تعاون پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے سابق سفیر حسین حقانی کو امریکہ سے وطن واپس لانے کے معاملے پر معروف قانون دان احمر بلال صوفی کو عدالت کا معاون مقرر کردیا ہے۔

بدھ کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کو وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے بتایا کہ انھوں نے حسین حقانی کے معاملے پر امریکی حکام کو مطلع کیا تھا لیکن ان کے بقول "وہ (امریکی حکام) کہتے ہیں کہ ان کے لوگوں میں سے بھی ایک شخص ہمارے (پاکستانی حکام کے) پاس ہے۔"

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا امریکی حکومت نے حقانی کی حوالگی سے انکار کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایک امریکی شہری امریکی سپریم کورٹ میں بیانِ حلفی دے کر بھی عدالت کے سامنے پیش نہ ہو اور امریکہ اسے پاکستان سے طلب کرے تو کیا پاکستان بھی اسے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر سکتا ہے؟

بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے امریکی حکام کو حسین حقانی پر چار ارب روپے سے زائد کی بدعنوانی کے الزامات کے بارے میں بھی آگاہ کیا جس پر امریکی حکام نے تعاون پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

ایف آئی اے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انٹرپول میں بھارت کے پانچ لوگ شامل ہیں جب کہ پاکستان کا ایک بھی نمائندہ اس میں نہیں۔

عدالت عظمیٰ نے حسین حقانی کو پاکستان لانے کے لیے بین الاقوامی قوانین کے ماہر احمر بلال محبوب کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے معاملے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لیے مارچ میں عدالتِ عظمیٰ نے حکام کو ایک ماہ کی مہلت دی تھی۔ اس ہدایت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حسین حقانی نے کہا تھا کہ بین الاقوامی قانون میں سپریم کورٹ کے احکامات کی کوئی وقعت نہیں۔

انہوں نے پاکستان میں اپنے خلاف جاری عدالتی کارروائی کو "عدالتی تماشا" بھی قرار دیا تھا۔

میموگیٹ اسکینڈل 2011ء میں اس وقت سامنے آیا تھا جب ایک پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھیں اس وقت واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ایک خفیہ میمو امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن کو پہنچانے کا کہا تھا۔

اس خط میں ایبٹ آباد میں القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے بعد مبینہ طور پر پاکستانی حکومت کے خلاف ممکنہ فوجی بغاوت روکنے کے لیے امریکہ سے مدد کی درخواست کی گئی تھی۔

حسین حقانی نے اس معاملے کے منظرِ عام پر آنے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا جب کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بھی بنایا گیا تھا جس کی رپوٹ کے مطابق یہ خط حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG