رسائی کے لنکس

مسجدِ نبوی واقعہ: عدالت نے پی ٹی آئی قیادت کے خلاف پولیس کو نئے مقدمات سے روک دیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو مسجد نبوی واقعہ پر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف ایف آئی آرز درج کرنے سے روک دیا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے توہینِ مذہب سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو معاملہ دیکھنے اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جمعرات کو پی ٹی آئی رہنماؤں فواد چوہدری، شہباز گل اور قاسم سوری کی جانب سے ان کے وکلا فیصل چوہدری، علی بخاری و دیگر پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ میں ان کیسز پر حیران ہوں، ملک میں مارشل لاء بھی رہا مگر کسی حکومت نے توہین مذہب قانون کو اس طرح استعمال نہیں کیا جس طرح موجودہ حکومت نے کیا ہے۔

انہوں نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف فیصل آباد میں درج توہینِ مذہب کے مقدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے وفاقی وزیرِ داخلہ سے کوئی توقع نہیں مگر وزیرِ قانون پر حیرت ہے۔ ہمیں ملک میں کوئی فساد نہیں کرنا، ماضی میں بھی بہت غلطیاں ہوئیں مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔

فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ایک دوسرے کی لاشوں پر چڑھ کر تو وزیر نہیں بننا ہوتا، ایسا رواج شروع کیا ہے کہ اس کے سنگین نتائج ہیں۔ ان کے بقول برطانوی پارلیمنٹ میں ڈسکشن شروع ہورہی ہے اور پاکستانیوں کے ویزے واپس لینے کی بات ہورہی ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاشرے میں استحکام صرف سیاسی لوگ ہی لا سکتے ہیں، مذہبی الزامات لگانا بہت بڑی بدقسمتی ہے اور مذہب کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنا خود توہینِ مذہب ہے۔ اس طرح 2018 میں بھی ہوا اور پہلے بھی ہوتا رہا، یہ بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔

یاد رہے کہ حکمران جماعت کے وفد کے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر بعض وزرا کے مسجد نبوی پہنچنے پر وہاں موجود افراد نے نعرے بازی کی تھی۔حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ تحریکِ انصاف کی قیادت کی ایما پر ان کے حامیوں نے مسجدِ نبوی میں نعرے بازی کی جو کہ مقدس مقام کی توہین ہے۔

مذکورہ واقعے کے خلاف سابق وزیرِ اعظم اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان، سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید سمیت 150 افراد کے خلاف فیصل آباد میں توہینِ مذہب کے مقدمات درج کیے گئے تھے۔

"وفاقی حکومت معاملے سے کیسے نمٹنا چاہتی ہے؟"

جمعرات کو پی ٹی آئی رہنماؤں کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مذہبی جذبات کا احترام ہے مگر ریاست کی بھی ذمہ داری ہے، اگر یہ تاثر ہے کہ سیاسی طور پر سب کیا جا رہا ہے تو اس تاثر کو زائل کرنا بھی ریاست کا کام ہے۔ ریاست نے ماضی میں مذہب کی بنیاد پر اس طرح کی حرکتیں کی ہیں، لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ وفاقی حکومت اس معاملے سے کیسے نمٹنا چاہتی ہے جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے کہا کہ جو ایف آئی آر درج ہوئی اس پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔

اس موقع پر فواد چوہدری کا کہنا تھا اصولاً تو حکومت کو خود ہی عقل کرنی چاہیے۔ پولیس کی رپورٹ ہے کہ توہینِ مذہب کی چار درخواستیں آئی ہیں جس کی تفتیش چل رہی ہے اور ایک مقدمہ درج ہوا ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے اسلام آباد پولیس، وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کا جواب عدالت میں جمع کرایا جس کے مطابق مسجدِ نبوی واقعے کے تناظر میں کوئی کارروائی شروع نہیں کی۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سائبر کرائم ونگ اور کاؤنٹر ٹیررازم ونگ نے بھی کوئی کارروائی شروع نہیں کی البتہ ایک مقامی تھانے میں اس معاملے پر کارروائی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاست میں تحمل اور رواداری بہت ضروری ہے اور سیاسی رہنماوں کو بہت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

درخواست گزاروں کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نےعدالت کو بتایا کہ آئی جی اسلام آباد کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہینِ مذہب کی چار درخواستوں پر تفتیش ہو رہی۔

"ریاست کا کام ہے کہ وہ مذہبی جذبات کو نہ ابھارے"

چیف جسٹس نے کہاکہ جس ایف آئی آر کی کاپی عدالت کو جمع کرائی وہ تو نامکمل ہے، ان چیزوں کو وفاقی حکومت کو خود دیکھنا چاہیے۔ مذہبی احساسات قابل احترام ہیں مگر ریاست کو دیکھنا چاہیے کہ مذہب کو غلط استعمال نہ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اسمبلی میں جاکر ان معاملات پر بات کیوں نہیں کرتے۔ اس پر فواد چوہدری نے کہاکہ ہم سب استعفیٰ دے چکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کو اب تک ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا۔

اس پر فواد چوہدری نے کہا کہ عثمان بزدار کے معاملے پر آپ کی اس بات کو اپلائی کریں تو پھر وہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ آئین پاکستان کی بہت بے توقیری ہو چکی ہے، آئین پاکستان ہی لوگوں کو اکٹھا رکھ سکتا ہے، اگر آئین کو سپریم سمجھتے تو آج ملک میں یہ حالات نہ ہوتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مدینہ منورہ میں ایک واقعہ ہوا، ریاست کا کام ہے کہ وہ یقینی بنائے کہ مذہبی جذبات کو نہ ابھارا جائے اور تمام سیاسی قیادت کو ایک ساتھ بٹھا کر پالیسی بنائے کہ مذہب کو سیاست میں نہیں لانا اور سیاسی تنازعات کے لیے مذہب کا استعمال نہیں کرنا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے کہا کہ لوگوں کے مذہبی جذبات ہیں اور مسجدِ نبوی واقعے سے انہیں ٹھیس پہنچی، مقدمہ درج کرانے کی درخواستیں پرائیویٹ پرسنز کی جانب سے جمع کرائی گئی ہیں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے وزارت داخلہ اور ڈی پی او سے رپورٹ مانگنے کی اجازت دیں اور وہ اس سے متعلق وفاق سے ہدایات لے لیتے ہیں۔

پی ٹی آئی وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ وزارتِ داخلہ کو تمام مقدمات ختم کرنے کا حکم دیا جائے۔

چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس کو مزید مقدمات درج کرنے سے روکتے ہوئے ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل اس معاملے کو دیکھیں اور ڈپٹی اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر عدالت کو مطمئن کریں۔

عدالت نے حکم دیا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو ہدایت کرے کہ تمام مقدمات خارج کرے جب کہ درخواست پر مزید سماعت 26 مئی تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

XS
SM
MD
LG