رسائی کے لنکس

محمد بن سلمان کا دورۂ خلیجی ممالک: خطے میں نئی صف بندی ہو رہی ہے؟


محمد بن سلمان نے قطر سے قبل متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کیا تھا جہاں اُنہوں نے حکام سے ملاقات میں باہمی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا تھا۔
محمد بن سلمان نے قطر سے قبل متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کیا تھا جہاں اُنہوں نے حکام سے ملاقات میں باہمی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا تھا۔

سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان ان دنوں خلیجی ممالک کے دورے پر ہیں۔ علاقائی صورتِ حال اور عالمی منظرنامے کے تناظر میں اُن کے دورے کو اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔

بدھ کو محمد بن سلمان قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے۔ چار برس قبل دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اس وقت سرد مہری آ گئی تھی جب سعودی عرب اور خطے میں اس کے اتحادی ممالک متحدہ عرب امارات اور بحرین نے دہشت گردی کی معاونت اور ایران کے ساتھ مبینہ قربتوں کے باعث قطر کے ساتھ اپنے روابط ختم کر لیے تھے۔

البتہ رواں برس جنوری میں سعودی عرب کے شہر العلا میں خلیج تعاون کونسل کے اہم اجلاس میں ان ممالک نے قطر کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر لیے تھے۔

سعودی ولی عہد ایسے موقع پر خطے کے ممالک کے دورے پر ہیں جب گزشتہ ہفتے ترک صدر رجب طیب ایردوان نے بھی قطر کا دو روزہ دورہ کیا تھا۔

ترکی نے 2017 میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کے دوران اس کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔

ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات میں اس وقت سرد مہری آ گئی تھی جب سعودی ایجنٹس کی استنبول میں سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔

البتہ حالیہ معاشی بحران کے باعث ماہرین کے مطابق ترکی، قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تجارت کے فروغ اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔

'یمن تنازع علاقائی تعلقات کا بنیادی محرک ہے'

مشرقِ وسطیٰ اُمور کے ماہر منصور جعفر کہتے ہیں کہ یمن سے فوجی انخلا کے معاملے پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے منصور جعفر کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان عمان، امارات اور قطر کے دورے کے ذریعے یمن کے حوالے سے ان ممالک کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔

خیال رہے کہ یمن میں 2014 میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جس کے دوران ایران نواز حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے یمن میں فوجی مداخلت کا آغاز کیا تھا۔

ابتداً امارات بھی اس اتحاد کا حصہ تھا، تاہم 2020 میں اس نے یمن سے اپنی فوجیں نکال لی تھیں۔

'محمد بن سلمان خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں لا رہے ہیں'

عالمی اُمور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے تناظر میں خطے میں نئی صف بندی ہو رہی ہے۔

اُن کے بقول مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے اتحادی ممالک بالخصوص سیکیورٹی کے حوالے سے شراکت دار ممالک میں اب یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ کیا امریکہ کی اُن کے حوالے سے پالیسی پہلے جیسی ہی رہے گی یا نہیں؟ اسی لیے وہ نئی صف بندیاں کر رہے ہیں۔

ہما بقائی کہتی ہیں کہ محمد بن سلمان ازسرِ نو خارجہ پالیسی مرتب کر رہے ہیں جس میں ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی پالیسی بھی شامل ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ قطر کے ایران اور ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، لہذٰا وہ سعودی عرب کو ان دونوں ممالک کے قریب لانے میں ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

ہما بقائی کہتی ہیں کہ جس طرح قطر نے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان معاہدے میں اہم کردار ادا کیا اسی طرح خلیجی ممالک کے اختلافی اُمور کو حل کرانے میں بھی قطر مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے۔

خیال رہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کا یہ گلہ رہا ہے کہ ایران خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے علاوہ اپنی پراکسیز کے ذریعے خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔

البتہ تہران ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

منصور جعفر کہتے ہیں کہ محمد بن سلمان کے اس دورے کا ایک اور مقصد خطے میں ایران کو تنہا کرنا بھی ہے۔

اُن کے بقول خطے کے ممالک مغربی ممالک کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ایران کے معاملے میں یک آواز ہیں۔

منصور جعفر کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور خطے کے بعض ممالک سمجھتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ، ٹرمپ انتظامیہ کی نسبت ایران کے معاملے میں نرم رویہ رکھتی ہے۔ لہذٰا محمد بن سلمان اس دورے کے ذریعے امریکہ کو بھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ایران کو کسی بھی طرح کی کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

'خطے کے ممالک ایران کی پراکسی وار کا مقابلہ نہیں کر سکے'

ہما بقائی کہتی ہیں کہ خطے کے ممالک ایران کی پراکسی وار کا مقابلہ نہیں کر سکے، لہذٰا اُن کی کوشش ہے کہ ایران کے ساتھ ایسے تعلقات رکھے جائیں جو خطے کے ممالک مفادات سے مماثلت رکھتے ہوں۔

اُن کے بقول سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں جب ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں ہلاک کیا گیا تو اس وقت بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان بیک ڈور رابطے تھے اور سعودی عرب کو اعتماد میں لیے بغیر امریکہ نے یہ کارروائی کی تھی۔

حالیہ عرصے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں بھی بہتری کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اپریل سے مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں۔

محمد بن سلمان نے قطر سے قبل متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کیا تھا جہاں اُنہوں نے حکام سے ملاقات میں باہمی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا تھا۔

سعودی ولی عہد نے ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زید النہیان سے بھی ملاقات کی تھی۔

ملاقات کے بعد جاری کیے جانے والے مشترکہ اعلامیے میں دونوں رہنماؤں نے سعودی عرب، امارات، بحرین اور عمان پر مشتمل خلیج تعاون کونسل کی مضبوطی پر زور دیا تھا۔

سعودی ولی عہد نے دورے کے دوران دبئی میں جاری ایکسپو میں قائم سعودی پویلین کا بھی دورہ کیا تھا، اس موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

جمال خشوگی کے قتل میں ملوث مشتبہ ملزم کی گرفتاری

سعودی عرب کے ولی عہد کے دورہ امارات کے دوران ہی یہ خبر سامنے آئی کہ فرانسیسی حکام نے صحافی جمال خشوگی کے قتل میں ملوث ایک مشتبہ ملزم خالد العتیبی کو گرفتار کر لیا۔

خیال رہے کہ رواں برس بائیڈن انتظامیہ نے صحافی جمال خشوگی کے قتل کے حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی ولی عہد نے جمال خشوگی کے قتل کے احکامات دیے تھے۔ تاہم محمد بن سلمان نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

محمد بن سلمان کی ساکھ کو جمال خشوگی کے مبینہ قتل کے بعد دھچکہ لگا تھا۔ ماہرین کے مطابق خطے کے مختلف ممالک کے دورے کے ذریعے وہ اپنی اُوپر لگنے والے اسے دھبے کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔

اس خبر کے لیے بعض معلومات نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' اور 'فرانس 24' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG