رسائی کے لنکس

'فوج کے القاعدہ اور افغان جنگجوؤں سے روابط فطری تھے'


عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننا ایک تاریخی غلطی تھی۔ (فائل فوٹو)
عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننا ایک تاریخی غلطی تھی۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے القاعدہ اور دیگر جنگجو گروہوں کو افغانستان میں لڑنے کے لیے تربیت دی تھی اور پالیسی میں تبدیلی کے بعد بھی ان کے درمیان رابطے ہونا فطری عمل تھا۔

امریکہ کے شہر نیویارک میں پیر کو امریکی تھنک ٹینک 'کونسل فار فارنِ ریلیشنز' سے خطاب کے دوران عمران خان نے کشمیر، بھارت، افغانستان، امریکہ اور خطے کی سکیورٹی صورت حال سمیت مختلف امور پر روشنی ڈالی اور شرکا کے مختلف سوالات کے جواب دیے۔

عمران خان نے کہا کہ 80 کی دہائی میں ​امریکہ نے افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے والے جہادیوں کو ہیرو بنایا اور نائن الیون کے بعد اُسے پاکستان کی ضرورت پڑی تو ہمیں کہا گیا کہ جہادیوں کے خلاف جنگ کریں۔

انہوں نے کہا کہ 80 کی دہائی میں افغانستان میں قبضہ کرنے والوں کے خلاف لڑنے کو جہاد کا نام دیا گیا اور نائن الیون کے بعد جب امریکہ افغانستان میں آیا تو جنگجوؤں کی کارروائیوں کو دہشت گردی قرار دیا گیا۔

عمران خان کے بقول پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننا تاریخی غلطی تھِی۔
عمران خان کے بقول پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننا تاریخی غلطی تھِی۔

انہوں نے کہا "پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننا تاریخی غلطی تھی۔ میں نے 2008 میں امریکہ آ کر کہا تھا کہ جنگ افغانستان کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔"

عمران خان کے بقول پاکستان نے جب جنگجو گروہوں کے خلاف اپنی پالیسی میں 180 کے زاویے سے تبدیلی کی تو اس کی اندر سے بھی مخالفت ہوئی اور اس کے نتیجے میں پاکستان فوج پر بھی حملے ہوئے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ امریکہ اگر 19 برس میں افغانستان میں کامیاب نہیں ہوا تو آپ مزید 19 سال بھی کوششیں کر لیں، تب بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ افغانستان کے مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں۔

ایک سوال کے جواب پر عمران خان نے کہا کہ ​امریکہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج کے طالبان وہ نہیں ہیں جو 2001 میں تھے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ افغان باشندے ویسے تو آپس میں لڑتے ہیں لیکن جب کوئی بیرونی قوت اُن پر حملہ آور ہو تو وہ مل کر اس کے خلاف لڑتے ہیں۔

بھارت سے تعلقات سے متعلق عمران خان نے کہا کہ میں نے وزیرِ اعظم بننے کے بعد نریندر مودی سے بات کی اور کہا کہ آئیں غربت اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف نئے سرے سے تعلقات کا آغاز کرتے ہیں۔ لیکن ہم نے محسوس کیا کہ وہ انتخابات کے باعث بات چیت نہیں کرنا چاہتے تھے۔

عمران خان کے بقول ہم اپنے تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ پر امن تعلقات چاہتے ہیں اور ہم کرتار پور سرحد بھی کھول رہے ہیں۔

کشمیر سے متعلق عمران خان نے کہا کہ بھارت یہ کہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ ہے اور جب ہم باہمی مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے کشمیر میں کرفیو لگا کر 80 لاکھ افراد کو گھروں میں قید کیا ہوا ہے۔ ہم اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کشمیر سے کرفیو ختم کرائے۔ یہ تنظیم اسی مقصد کے لیے قائم کی گئی تھی۔

ایک موقع پر وزیرِ اعظم پاکستان نے کہا کہ میری ہر پالیسی کو پاکستانی فوج کی حمایت حاصل ہے۔ یہ پہلی بار صرف ہماری حکومت میں ہوا ہے جب فوج نے اپنے بجٹ اخراجات میں کمی کی ہو۔ ہماری فوج ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ میں موجود ہیں اور 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔

اس سے قبل انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، ترک صدر رجب طیب ایردوان سمیت دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ تاہم ان کا خطاب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے پہلے ہو گا۔

خیال رہے کہ عمران خان خود کو کشمیر کا سفیر قرار دیتے رہے ہیں جب کہ انہوں نے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔

گزشتہ ماہ قوم سے خطاب میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ دنیا کشمیر کے لیے کچھ کرے یا نہ کرے، پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی رہے گی۔

XS
SM
MD
LG