رسائی کے لنکس

چین اور بھارت فوجی کمانڈرز کے مذاکرات پر متفق، کیا تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت اور چین کے درمیان منگل کو ’ورکنگ میکینزم فار کنسل ٹیشن اینڈ کو آرڈینیشن‘ (ڈبلیو ایم سی سی) کے 24 ویں دور کا ورچوئل اجلاس ہوا اور لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کے بعد دونوں ممالک کی وزارتِ خارجہ نے اپنے الگ الگ بیانات میں کہا کہ فریقین ایل اے سی سمیت دیگر تنازعات کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے سفارتی اور فوجی سطح پر مذاکرات جاری رکھنے پر رضامند ہیں تاکہ باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے حالات پیدا ہو سکیں۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق فریقین کے درمیان جلد ہی کمانڈرز سطح کے 16 ویں دور کے مذاکرات ہوں گے تاکہ مغربی سیکٹر میں باہمی معاہدوں اور پروٹوکول کے مطابق تمام متنازع مقامات سے فوجوں کو ہٹانے کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔چین کی وزارتِ خارجہ نے بھی ایک بیان میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔

جب چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جان سے سرحدی تنازعے کے باہمی تجارت و سرمایہ کاری پر پڑنے والے اثرات سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ چین کا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ سرحدی معاملات چین بھارت تعلقات کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے۔ باہمی تعلقات کو مناسب پوزیشن میں اور مؤثر کنٹرول اور مینجمنٹ کے تحت رکھنا چاہیے۔

مبصرین کے مطابق بیجنگ کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کا سرحدی تنازع باہمی تعلقات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اسے اتنا بڑا نہیں بنانا چاہیے کہ وہ باہمی رشتوں اور تجارت پر اثرانداز ہو۔

بھارت اور چین کے درمیان کمانڈرز کی سطح کے 15 ویں دور کے مذاکرات 11 مارچ کو ہوئے تھے لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ البتہ 14 ویں دور کے مذاکرات جو کہ 12 جنوری کو ہوئے تھے کامیاب رہے تھے۔بھارت کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے باہمی تنازعات خصوصاً سرحدی تنازعے سفارتی اور فوجی سطح پر مذاکرات سے حل کیے جائیں تاکہ باہمی رشتے دوبارہ استوار ہوں۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے مطابق اب بھی لداخ کے مغربی حصے میں ایسے بہت سے معاملات ہیں جو کہ باہمی سلامتی کے اصولوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کو حل کیا جانا ہے۔

'بھارت چین تنازع جلد ختم ہونے کا امکان نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:59 0:00

مبصرین کے مطابق مشرقی لداخ میں جو متنازع مقامات ہیں، وہاں سے دونوں ملکوں کی افواج کی واپسی کا عمل آسان نہیں۔ بھارت کے دفاعی ماہرین کہتے ہیں کہ چین کا یہ طرزعمل رہا ہے کہ اس نے ایک بار جہاں قبضہ کر لیا وہاں سے وہ واپس نہیں جاتا۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اسد مرزا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تجزیہ بڑی حد تک درست ہے کہ چین نے ایل اے سی پر جہاں جہاں قبضہ کیا ہے وہاں سے واپس نہیں جائے گا۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چین کو ایل اے سی پر پہل کرنے کا فائدہ پہنچا ہے۔ بھارت اپنی دفاعی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے بجائے چین کی پہل کے اثرات کو کم کرنے میں مصروف ہے۔

ان کے مطابق یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ چین پورے جنوبی ایشیا میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔ حال ہی میں جاپان کے شہر ٹوکیو میں چار ملکوں بھارت، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل گروپ کواڈ کے اجلاس میں دو موضوعات پر زیادہ گفتگو ہوئی جن میں چین کا معاملہ سرفہرست تھا اور یوکرین کا معاملہ دوسرے نمبر پر تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کے نئے آرمی چیف جنرل منوج پانڈے بھارت کی اسٹریٹجک پلاننگ کو دوبارہ مرتب کرنے پر زور دیتے ہیں۔

اسد مرزا کے مطابق چین کی سرگرمیوں کے پسِ پشت ایک جیو پولیٹیکل منطق صاف نظر آرہی ہے۔ چین چاہتا ہے کہ بھارت اپنی شمالی سرحد پر فوجی اعتبار سے الجھا رہے۔ وہ اپنی بحری صلاحیتوں میں اضافے کے بجائے زمینی سرحد پر زیادہ توجہ دے۔ تاکہ چین انڈو پیسفک خطے میں اپنی بحریہ کو دفاعی طور پر کہیں زیادہ مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جائے۔

بھارت چین تنازعات پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ مشرقی لداخ میں سرحدی تنازعات کے جلد حل ہونے کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔ مارچ میں کمانڈرز کی سطح پر جو مذاکرات ہوئے تھے ان میں افواج کو پیچھے ہٹانے کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ دراصل ایل اے سی کے ایک ایک پوائنٹ پر گفتگو ہو رہی ہے۔

مبصرین کے مطابق اس طرح تو تمام تنازعات کو ختم کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ اس لیے ان کے خیال میں اس کی امید نہیں کی جا سکتی کہ آئندہ برس یا اگلے چھ ماہ میں تنازعات ختم ہو جائیں گے۔وہ اس کے لیے بڑی حد تک چین کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

پندرہویں دور کے مذاکرات میں ہاٹ اسپرنگ علاقے میں پیٹرولنگ پوائنٹ 15 اور گلوان وادی اور پینگانگ جھیل سے افواج کو ہٹانے پر گفتگو ہوئی تھی لیکن پیٹرولنگ پوائنٹ سات اور سات اے یعنی ڈیمچوک اور دیپسانگ اب بھی متنازع مقامات ہیں۔ ان پر اب بھی کوئی بات نہیں ہو سکی ہے۔14ویں دور کے مذاکرات کے نتیجے میں گلوان وادی اور پینگانگ جھیل سے افواج ہٹا لی گئی تھیں۔

گزشتہ سال جون میں گلوان وادی میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان خونی جھڑپ کے بعد، جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے تھے، نئی دہلی نے متعدد چینی ایپس پر پابندی لگا دی تھی۔ حالیہ دنوں میں اس کی کئی ٹیلی کام کمپنیوں جیسے کہ شاؤمی، زیڈ ٹی ای اور ویوو کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے مطابق وہاں کی وزارتِ تجارت بھارت کے اس اقدام پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کا خیال ہے کہ بھارتی حکومت اپنے ضوابط کے مطابق چینی کمپنیوں کی درست تحقیقات کرے گی اور صرف اس وجہ سے ان پر کوئی پابندی عائد نہیں کرے گی کہ ان کا تعلق چین سے ہے۔

خیال رہے کہ ایک طرف بھارت کی جانب سے مبینہ تادیبی اقدامات کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف دونوں ممالک کی باہمی تجارت بڑھتی جا رہی ہے۔

اسد مرزا کہتے ہیں کہ نئی دہلی نے یہ جو کارروائیاں کی ہیں وہ در اصل چین کے خلاف بھارت کی نفسیاتی جنگ ہے۔ وہ چین کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر وہ اس کے خدشات کو دور نہیں کرتا تو وہ اس کے خلاف ایسے اقدامات کر سکتا ہے۔

مبصرین کے مطابق دراصل صرف بھارت کے ساتھ چین کی تجارت نہیں بڑھی ہے بلکہ دنیا کے اکثر ملکوں کے ساتھ اس کی تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین بنیادی طور پر پوری دنیا کا مینو فیکچرنگ مرکز بن چکا ہے۔ کوئی بھی مغربی ملک چین پر بہت زیادہ دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کرونا وبا کے دوران جس طرح سپلائی چین متاثر ہوئی تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

حال ہی میں بھارت کی وزارتِ تجارت نے سال 22-2021 سے متعلق تجارتی تفصیلات جاری کی ہیں جن کے مطابق اب چین کے بجائے امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن چکا ہے۔

لیکن چین اس کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بیجنگ رینکنگ کی اس تبدیلی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ یہ اعداد و شمار کا معاملہ ہے۔ چین اب بھی بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

اسد مرزا کہتے ہیں کہ دراصل چین کا کہنا یہ ہے کہ اعداد و شمار کے اس کھیل پر توجہ دینے کے بجائے ہمسایہ ملکوں کے درمیان کیسے تعلقات ہونے چاہئیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ باہمی رشتوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جا سکے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG