رسائی کے لنکس

حمزہ شہباز کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا عندیہ، کیا پنجاب میں نیا سیاسی بحران دستک دے رہا ہے؟


تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق وزیرِ قانون راجہ بشارت کہتے ہیں کہ پنجاب میں نئے گورنر کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ حمزہ شہباز بطور وزیرِ اعلٰی اعتماد کھو چکے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق وزیرِ قانون راجہ بشارت کہتے ہیں کہ پنجاب میں نئے گورنر کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ حمزہ شہباز بطور وزیرِ اعلٰی اعتماد کھو چکے ہیں۔

پاکستان کے صوبے پنجاب میں نئے گورنر کی تعیناتی کے بعد حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) صوبے میں سیاسی استحکام کے لیے پرامید ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف نیا محاذ کھولنے کا عندیہ دیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز کے پاس پنجاب میں حکمرانی کا اخلاقی جواز نہیں ہے۔پنجاب میں اپوزیشن جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)سمجھتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گی، کیوں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان بداعتماد ی کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔

بعض سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ صوبے میں اب سیاسی حالات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی افراتفری کا یہ ماحول قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نئے انتخابات تک برقرار رہے گا۔

تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق وزیرِ قانون راجہ بشارت کہتے ہیں کہ پنجاب میں نئے گورنر کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ حمزہ شہباز بطور وزیرِ اعلٰی اعتماد کھو چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ اگر خصوصی نشستوں پر تحریکِ انصاف کے پانچ اراکین کو الیکشن کمیشن نوٹیفائی کر دیتا ہے تو حمزہ شہباز کے لیے صورتِ حال مزید پریشان کن ہو گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ" ہمیں انتظار اس بات کا ہے کہ ہماری مخصوص نشستوں پر پانچ ارکین آ جائیں اور یقین ہو جائے کہ ہمیں عددی برتری حاصل ہے تو پھر حمزہ شہباز کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لا سکتے ہیں۔"

راجہ بشارت (فائل فوٹو)
راجہ بشارت (فائل فوٹو)

خیال رہے کہ حمزہ شہباز تحریکِ انصاف کے 25 منحرف اراکین کی حمایت کے ساتھ 197 ووٹ لے کر پنجاب کے وزیرِ اعلٰی منتخب ہوئے تھے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر ان اراکین کو ڈی سیٹ کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے بھی آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دی تھی کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ تاہم عدالت نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ آیا اس کا اطلاق ماضی میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے اراکینِ اسمبلی پر ہو گا۔

پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین میں پانچ مخصوص نشستوں پر رُکن پنجاب اسمبلی بنے تھے جن میں تین خواتین اور دو اقلیتی رُکن ہیں۔تحریکِ انصاف نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کر رکھی ہے کہ ان اراکین کے نوٹی فکیشن جاری کیے جائیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ہے کہ ضمنی الیکشن کے بعد ہی ان اراکین کا نوٹی فکیشن ہو سکتا ہے۔

'

عددی برتری کے بعد تحریکِ عدم اعتماد لائیں گے'

راجہ بشارت کی جانب سے حمزہ شہباز کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے عندیے پر صوبائی وزیر حسن مرتضیٰ کہتے ہیں اب یہ تحریکِ انصاف کا خواب ہی رہے گا۔اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ تحریکِ انصاف کے مزید کئی اراکینِ اپنی جماعت سے راہیں جدا کرنے والے ہیں اور اُنہیں پتا ہی نہیں ہے کہ تحریکِ انصاف کے ساتھ آگے کیا ہونے والا ہے۔

حسن مرتضیٰ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور کابینہ میں سینئر وزیر ہیں۔ ان کے خیال میں 2008 اور 2022 کے حالات میں بہت فرق ہے۔ اس لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اپنی ذاتی انا کو پس پشت ڈال کر اتحاد کو چلانا ہو گا اور اگر یہ اتحاد نہ چل سکا تو ملک کے ساتھ المیہ ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ امن و امان کی صورتِ حال خراب ہےاور قوم مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے۔

خیال رہے کہ 2008 میں بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے پنجاب میں مخلوط حکومت قائم کی تھی لیکن چند ماہ بعد ہی اس وقت پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے پنجاب میں گورنر راج لگا دیا تھا جس کے بعد دونوں جماعتوں میں بداعتماد ی میں اضافہ ہوا تھا۔

وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز کی کابینہ میں پیپلزپارٹی کے وزرا کی شمولیت کے سوال پر راجہ بشارت کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے لوگوں کا مزاج اور طرح کا ہے، لہذٰا اُن کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چلنا آسان نہیں ہو گا۔

اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) کی اپنی صفوں میں دراڑیں موجود ہیں کیوں کہ کئی ایسے سینئر رہنما ہیں جو دہائیوں سے پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں جنہیں نظرانداز کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں اس وقت مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کے 172 جب کہ تحریکِ انصاف اور اس کے اتحادیوں کے 168 اراکین ہیں۔ لہذٰا تحریکِ انصاف کو اُمید ہے کہ اگر اسے پانچ مخصوص نشستوں پر اراکین مل جاتے ہیں تو اسے ایوان میں برتری حاصل ہو سکتی ہے۔

رہنما تحریکِ انصاف راجہ بشارت کہتے ہیں کہ صوبائی بجٹ کی منظوری کے لیے حکمراں جماعت کو پاپڑ بیلنے پڑیں گے اور اُنہیں اپنے ہی اراکین کو مطئمن کرنا مشکل ہو گا کیوں کہ مہنگائی کے اس دور میں بجٹ بنانا آسان نہیں ہو گا۔

صوبائی وزیر حسن مرتضیٰ نے اعتراف کیا کہ اسمبلی سے بجٹ کی منظوری بلاشبہ ایک بڑا چیلنج ہے لیکن ان کے بقول حکومت کے پاس ایوان میں عددی اکثریت ہے لہذٰا بجٹ منظور کرا لیا جائے گا۔

کیا گورنر آنے سے پنجاب حکومت مستحکم ہو گی؟

مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی پرویز بشیر کہتے ہیں کہ گورنر کے آنے سے مسلم لیگ (ن) کو کسی حد تک تو ریلیف ملے گا۔ لیکن اب بھی حمزہ شہباز کے لیے بہت سے چیلنجز ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز بشیر کا کہنا تھا کہ جس طرح کے مسائل کا سامنا وفاق میں شہباز شریف کو ہے۔ یہی صورتِ حال پنجاب میں حمزہ شہباز کو بھی درپیش ہے۔

اُن کے بقول منحرف اراکین کا معاملہ اور حمزہ شہباز کے خلاف کرپشن مقدمات کی تلوار لٹک رہی ہے جب کہ عدالت میں اُن کے بطور وزیرِ اعلٰی انتخاب کے معاملات بھی زیرِ سماعت ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ مرکز میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی حکومت اچھی چل رہی ہے۔ لہذٰا پنجاب میں بھی بظاہر کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔ ان کے بقول 25 منحرف اراکین کو نکال بھی دیں تو بھی اس وقت ایوان میں حمزہ شہباز کو عددی برتری حاصل ہے ورنہ مخالفین تحریکِ عدم اعتماد لے آتے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے، لہذٰا اگر اپوزیشن گورنر سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ حمزہ شہباز سے اعتماد کا ووٹ لیں تو وہ اسے ہرگز تسلیم نہیں کریں گے۔

پرویز بشیر کہتے ہیں کہ اتحادی حکومت کے بھی اپنے مسائل ہوتے ہیں کیوں کہ پیپلزپارٹی کابینہ میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینا چاہ رہی ہے۔ لہذٰا بہت سے چیلنجز جمع ہو گئے ہیں۔

اُن کے بقول حمزہ شہباز اپنے والد سے ہدایات لے کر صوبے کے معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن پنجاب اسمبلی میں غیر یقینی صورتِ حال اُن کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اگر مرکز میں حکومت کو خطرہ ہوا تو پنجاب کو بھی خطرہ ہو گا اور اگر مرکز میں معاملات چلتے رہے تو پھر یہ صوبے میں بھی معاملات سدھار لیں گے۔

XS
SM
MD
LG