رسائی کے لنکس

اسرائیل کا دورہ مذہبی ہم آہنگی کے لیے تھا، کوئی 'ٹاسک' نہیں تھا: انیلا علی


پاکستانی امریکی سرگرم کارکن انیلا علی اسرائیل کے صدر کو تحفہ پیش کر رہی ہیں (فوٹو بشکریہ انیلا علی)
پاکستانی امریکی سرگرم کارکن انیلا علی اسرائیل کے صدر کو تحفہ پیش کر رہی ہیں (فوٹو بشکریہ انیلا علی)

حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے پاکستانی امریکیوں کے وفد کی ایک رکن انیلا علی نے کہا ہے کہ ان کے دورے کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی تھا اور عمران خان کی سابق حکومت نے ایک پاکستانی امریکی یہودی کو بھی ساتھ لے جانے میں تعاون کیا تھا جو ایک قابلِ ستائش بات ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر سیاست افسوس ناک امر ہے۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ اسکائپ انٹرویو میں انیلا علی نے کہا کہ ان کا تعلق پاکستان میں کسی سیاسی جماعت سے نہیں اور نہ ہی اس دورے کے لیے پاکستان کے کسی سیاسی، سفارتی یا حکومتی حلقے نے کوئی 'ٹاسک' دیا تھا۔

ان کے بقول امریکہ میں بھی سیاسی یا سفارتی حلقوں کا اس دورے میں کوئی کردار نہیں۔

انیلا علی واشنگٹن میں مقیم پاکستانی نژاد امریکی ہیں اور خواتین کی ایک غیر سرکاری تنظیم 'امریکن مسلم ملٹی فیتھ امپاورمنٹ کونسل' کی رکن اور متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ انیلا علی نے بتایا کہ وہ دہری شہریت نہیں رکھتیں اوران کے پاس صر ف امریکی پاسپورٹ ہے۔

انیلا علی مئی کے اوئل میں اسرائیل جانے والے پاکستانی امریکیوں کے ایک وفد کا حصہ تھیں جس میں پاکستانی کاروباری شخصیت سمیع خان، پاکستانی صحافی احمد قریشی، پاکستانی امریکی یہودی فیشل بن خلد، رعنا سید اور عائشہ باجوہ شامل تھیں۔

پاکستانی امریکی شہریوں کا وفد اسرائیل میں مختلف مقامات کا دورہ کر رہا ہے
پاکستانی امریکی شہریوں کا وفد اسرائیل میں مختلف مقامات کا دورہ کر رہا ہے

اس وفد نے اسرائیل کے صدر اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور کئی مقامات کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کی خبریں آنے اور بعد ازاں اسرائیل کے صدر کی جانب سے اس بیان کے بعد کہ پاکستانی نژاد امریکیوں سے ملنا ایک حیرت انگیز تجربہ تھا، پاکستان میں، سیاسی و سماجی حلقوں میں بحث شدت اختیار کر گئی حتی کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کی قیادت نے اس دورے کی اوٹ میں ایک دوسرے پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے الزامات عائد کیے۔

وفد میں شامل پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ وابستہ رہنے والے میزبان احمد قریشی کو بھی سابق حکومت کے عہدیداروں اور سوشل میڈیا کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دورۂ اسرائیل کے بعد پی ٹی وی کے ساتھ ان کا معاہدہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

انیلا علی کہتی ہیں ان کے دورے پر سیاست ہو رہی ہے۔ حالاں کہ وہ تحریک انصاف سمیت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سے ملاقتیں کرتی رہی ہیں۔ ان کے بقول وہ بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کے فروغ پر کام کرتی ہیں اور اس سلسلے میں وہ عمران خان حکومت کی ممنون ہیں کہ انہوں نے ایک پاکستان یہودی فیشل بن خلد کو اس دورے میں شامل کرانے کے لیے کردار ادا کیا۔

ان کے بقول، " عمران خان نے خود کہا تھا کہ پاکستانی یہودی اپنے پاسپورٹ پر مذہب کے خانے میں ’ یہودیت لکھے۔ یہ تو بہت خوبصورت بات ہے کہ پاکستان میں ہر مذہب کے لوگ رہ سکتے ہیں۔"

پاکستانی نژاد امریکی انیلا علی نے بتایا کہ اسرائیل کے اس دورے میں 'شراکا' نامی تنظیم نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ مسلم عرب اسرائیلی اتحاد ہے جس کا مقصد دین ابراہیمی کے پیروکاروں کے درمیان دوستی قائم کرنا ہے۔

انیلا علی نے بتایا کہ وہ شراکا کی بورڈ ممبر بھی ہیں اور واشنگٹن میں قائم خواتین کی تنظیم 'ایمویک' اس کی شراکت دار ہے۔

انیلا علی نے بتایا کہ ان کے دورۂ اسرائیل کا مقصد لوگوں کے ساتھ تعلق کی سفارت کاری کو فروغ دینا تھا۔ اس دورے میں مسلم امریکی پاکستانیوں سمیت سکھ اور مسیح رہنما بھی شریک تھے جب کہ دورے کے اخراجات کسی فنڈنگ سے پورے نہیں کیے گئے بلکہ لوگوں نے خود اپنی جیب سے ادا کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کی تنظیم کی اراکین یوکرین اور کشمیر بھی جانا چاہتی ہیں تاکہ امن کے لیے آواز بلند کر سکیں۔

انیلا علی سے جب پوچھا گیا کہ اگر ان کے دورے کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی تھا تو پھر انہوں نے غزہ کی پٹی کا دورہ کیوں نہیں کیا اور فلسطینیوں کی قیادت سے ملاقات کیوں نہیں کی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لوگوں کو پتا ہونا چاہیے کہ ہمارا پہلا دورہ مغربی کنارے کا ہی تھا۔

ان کے بقول، "ہمارا گروپ تین سال پہلے غزہ کا دورہ کر چکا ہے۔ ہماری خواتین کی غیر سرکاری تنظیم کا یہ گروپ اتفاق سے ان دنوں مغربی کنارے گیا تھا جب پاکستان کے اندر ایک اسرائیلی طیارے نے لینڈ کیا تھا۔ اس کے بعد عالمی وبا آ گئی اور ہم جا نہیں سکے۔ اس دورے میں ہم ان شہروں میں گئے جنہیں ہم دیکھنا چاہتے تھے، جیسے مسلم اکثریت والے شہر حائفہ، جیسے أبو غوش ہے، وہاں گئے اور مسلم عرب تنظیموں سے بات چیت کی، خواتین کی تنظیم سے بات کی، فلسطینیوں سے بات کی اور جو جگہیں خطرناک تھیں، وہاں نہیں گئے۔"

انہوں نے دعویٰ کیا کہ تین سال پہلے ان کی تنظیم نے غزہ کے صدارتی امیدوار سے بات کی تھی۔ حنان اشراوی اور نبیل شاد سے ملاقات ہوئی تھی اور اس وقت یہ سب ہم سے کہہ رہے تھے، آپ با اثر پاکستانی امریکی ہیں، صدر ٹرمپ سے ہمارے لیے پیسے مانگیں۔

انیلا علی اور گروپ میں شامل دیگر اراکین نے اپنے ٹوئیٹس میں بتایا ہے کہ انہیں اسرائیل کے ایئرپورٹ پر اور دیگر سرکاری اداروں میں مسلمانوں کو کام کرتے دیکھ کر بہت اچھا لگا جو 'اسٹیریو ٹائپس' کے بالکل برعکس تھا۔

انیلا علی نے اپنے سوشل میڈیا پر پاکستانی یہودی اور اسرائیل کے اندر ایک افغان یہودی کی ملاقات کی تصاویر بھی شئیر کی ہیں۔ اور باقی گروپ کی سرگرمیاں اور اسرائیل کے صدر کے ساتھ ملاقات کی تصاویر بھی پوسٹ کی ہیں۔

اسرائیلی صدر نے حال ہی میں ڈیووس میں ایک کانفرنس کے دوران اس ملاقات کے بارے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں سے ملنا ایک خوش گوار تجربہ تھا۔

انیلا علی نے بتایا کہ انہوں نے اسرائیلی صدر کے ساتھ ملاقات میں ان کو پاکستان کی تشکیل پر اپنے والد کی کتاب اور سندھی اجرک پیش کی تھی۔ ان کے بقول اسرائیل کے صدر کو اس بارے میں بہت دلچسپی رہی کہ پاکستان سے باہر رہنے والے لوگوں کی کہانیاں کیا ہیں، کس طرح وہ اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ وہ ملائیشیا اور سکھوں کے بارے میں بھی بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی میڈیا پرسن احمد قریشی نے بھی اپنے ٹوئیٹس میں معاملے کے سیاسی رنگ اختیار کرنے پر تنقید کی ہے اور سابق وزیراعظم عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک سابق وزیراعظم اور ان کی پاپولسٹ جماعت کا مستقبل ایک صحافی اور امن کے لیے کام کرنے والی دو تنظیموں کے کاندھوں پر کھڑا ہے۔

احمد قریشی کو اسرائیل کا دورہ کرنے پر پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن نے معطل کر دیا ہے۔

پی ٹی وی ورلڈ کے ٹوئٹر ہینڈل سے وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایک شخص کو سستی شہرت کے حصول سے پہلے ملکی مفادات کا سوچنا چاہیے تھا۔ ان کے ناقابل قبول اقدامات کو دیکھتے ہوئے پاکستان ٹیلی ویژن نے ایک ایسے فرد کے ساتھ کنٹریکٹ ختم کر دیا ہے جس نے اپنی مرضی سے ایک مخصوص ملک کا سفر کیا۔

دورے میں شریک پاکستانی یہودی فیشل اور بعض دیگر صارفین نے حکومت کے اس فیصلے پر بھی اپنی ٹوئیٹس میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG