رسائی کے لنکس

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر کے حالات بہتر ہوئے: بھارتی حکومت کا دعویٰ


بھارتی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ سال آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد تشدد میں کمی اور حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ تاہم مبصرین اور سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ طوفان سے پہلے کی خاموشی بھی ہو سکتی ہے۔

بدھ کو جاری کیے گئے بیان میں بھارت کی وزارتِ داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال پانچ اگست کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد حالات بہتر ہو رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ 13 ماہ کے عرصے کے دوران نہ صرف عسکریت پسندی میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ بھارت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کے واقعات بھی 50 فی صد تک کم ہوئے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ 2018 اور 2019 میں اسی عرصے کے دوران مختلف جھڑپوں میں سیکیورٹی فورسز کے 125 اہلکار ہلاک ہوئے جب کہ رواں سال یہ تعداد 50 رہی۔ سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی کم ہوئی ہیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ سمجھتے ہیں کہ تشدد میں کمی کی ایک بڑی وجہ عسکریت پسندوں کی صفوں میں مقامی نوجوانوں کی شمولیت میں کمی اور سرحد پار سے در اندازی کی روک تھام ہے۔

بھارت کی وزارتِ داخلہ کے عہدے دار کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں تعینات فوج، نیم فوجی دستوں اور مقامی پولیس نے عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کو کنٹرول کیا ہے۔

حکام کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی سے نمٹنے میں سیکیورٹی فورسز کا مرکزی کردار رہا ہے اور ان کی طرف سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار بہتر حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔

کشمیر میں تعینات سیکیورٹی فورسز افسران کا کہنا ہے سیکیورٹی کی صورتِ حال میں بہتری کی ایک اہم وجہ انٹیلی جنس کا بہت بہتر نیٹ ورک ہے جسے کافی مضبوط کیا گیا ہے۔

حکام کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 13 ماہ کے دوران 300 کے لگ بھگ عسکریت پسندوں کی ہلاکت سے بھی حالات کنٹرول کرنے میں مدد ملی ہے۔

تاہم مقامی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ یہ 'طوفان سے پہلے کی خاموشی' ہو سکتی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں اور رہنما اس نظریے کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر بات چیت بہت ضروری ہے۔

یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہٴ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کہتے ہیں کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کشمیر کے حالات بہتری کی جانب جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر خاص طور پر وادیٴ کشمیر میں سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کے ساتھ ساتھ عام لوگوں پر طرح طرح کی قدغنیں لگائی گئی ہیں۔

ڈاکٹر نور بابا کے بقول کئی سیاسی رہنما اور کارکن اب بھی جیلوں یا گھروں میں نظر بند ہیں۔ پھر کرونا وائرس اور اس پر قابو پانے کے لیے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاوٴن نے معمولاتِ زندگی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔

اُن کے بقول ان حالات میں یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ کشمیر میں عسکریت پسندی ختم ہو گئی ہے اور حالات بہتر ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب جموں و کشمیر کے سابق وزیر اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنما نعیم اختر کہتے ہیں کہ حکومت جس امن کی بات کر رہی ہے وہ صرف دکھاوا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG