رسائی کے لنکس

بھارت: انتخابی مہم میں مسائل نظر انداز، جذبات حاوی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں جاری پارلیمانی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی پولنگ 18 اپریل کو ہو گی۔

ملک بھر میں جمعرات کو 12 ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام ایک خطے کی 97 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔

انتخابی مہم میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور حزبِ اختلاف کی جانب سے الگ الگ ایشوز اٹھائے جا رہے ہیں۔ جہاں وزیرِ اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے دیگر رہنما پاکستان، قومی سلامتی اور دہشت گردی کے مسائل اٹھا رہے ہیں وہیں اپوزیشن کی جانب سے مہنگائی، بے روزگاری، وعدوں کی عدم تکمیل، نوٹ بندی اور یکساں ٹیکس نظام سے معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کا چرچا ہے۔

اصل مسائل کیا ہیں؟

وزیرِ اعظم مودی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ فوجیوں کی ہلاکت اور قوم پرستی الیکشن میں کلیدی ایشوز ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ جب کسانوں کی خود کشی انتخابی ایشو بن سکتی ہے تو فوجیوں کی ہلاکت کیوں نہیں؟

وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی کے خیال میں قومی سلامتی اور دہشت گردی الیکشن میں اصل مسائل ہیں۔ ان کے بقول، "اپوزیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن حقیقی مسائل پر لڑا جانا چاہیے۔ میں کہتا ہوں کہ قومی سلامتی اور دہشت گردی ہی حقیقی مسائل ہیں۔"

بہوجن سماج پارٹی کی رہنما مایاوتی کو بی جے پی اور وزیرِ اعظم مودی کے لیے ایک چیلنجر قرار دیا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
بہوجن سماج پارٹی کی رہنما مایاوتی کو بی جے پی اور وزیرِ اعظم مودی کے لیے ایک چیلنجر قرار دیا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

کانگریس اور دوسری جماعتوں کا الزام ہے کہ بی جے پی اصل مسائل سے فرار اختیار کر رہی ہے۔ وہ مہنگائی، بے روزگاری، نوٹ بندی، معیشت کی تباہ حالی اور خواتین کی سلامتی جیسے مسائل پر گفتگو کرنے کی بجائے پاکستان اور بالاکوٹ پر بات کر کے لوگوں کی توجہ بٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔

انتخابی مہم میں پاکستان کی مخالفت حاوی

وزیرِ اعظم نریندر مودی اپنی تقریروں میں پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب دہلی میں ایسی حکومت ہے جو پاکستان کے عزائم کو ناکام بنانے کا حوصلہ اور ہمت رکھتی ہے۔

وہ پلوامہ حملے اور بھارتی فضائیہ کی جانب سے آپریشن بالاکوٹ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ انھوں نے مہاراشٹر میں تقریر کرتے ہوئے پہلی دفعہ ووٹ دینے والوں سے اپیل کی کہ وہ اپنا پہلا ووٹ پلوامہ میں ہلاک ہونے والے جوانوں اور بالاکوٹ میں کارروائی کرنے والے فوجیوں کے نام وقف کریں۔

ریاستی الیکشن افسر نے اسے انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا اور اس بارے میں قومی الیکشن کمشن کو ایک رپورٹ ارسال کی۔ لیکن تاحال اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم مودی حقیقی مسائل کو اٹھانے کی بجائے جذباتی مسائل اٹھا رہے ہیں۔

انتخابات میں اس بار کانگریس نے پریانکا گاندھی کو بھی میدان میں اتارا ہے۔ (فائل فوٹو)
انتخابات میں اس بار کانگریس نے پریانکا گاندھی کو بھی میدان میں اتارا ہے۔ (فائل فوٹو)

ایک تجزیہ کار آلوک موہن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں نہ تو پاکستان کوئی ایشو ہے اور نہ ہی پلوامہ حملہ اور آپریشن بالاکوٹ۔ بلکہ اصل مسائل مہنگائی، بے روزگاری، معیشت کی تباہی، کسانوں کی خود کشیاں اور ناکام خارجہ پالیسی ہے۔

آلوک موہن کے بقول آج تمام پڑوسی ملکوں سے بھارت کے رشتے خراب ہیں۔ لیکن بی جے پی کے رہنما اس پر بات نہیں کرتے۔

ایک اور تجزیہ کار انجم نعیم کہتے ہیں کہ بی جے پی نے اپنے ووٹ بینک کو اپنے قریب لانے کے لیے انتخابی مہم کو یک طرفہ طور پر فرقہ وارانہ بنا دیا ہے۔ اسی لیے پاکستان، فوج اور قوم پرستی کا نام لیا جا رہا ہے۔

ان کے خیال میں غربت، بے روزگاری اور ان تمام مسائل کو جن پر پہلے الیکشن لڑے جاتے تھے، اس بار نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں حقیقی مسائل کو محض دکھانے کے لیے اٹھاتی ہیں ورنہ وہ بھی اکثریت کو اپنے قریب کرنے کی جدوجہد میں ماحول کو جذباتی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

فرقہ واریت اور مذہبی منافرت

کئی حلقوں خصوصاً اقلیتوں کا الزام ہے کہ انتخابی مہم کے دوران فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ دیوبند میں ایک ریلی کے دوران بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر مایاوتی نے مسلمانوں کا نام لے کر ان سے اپیل کی کہ وہ اپنا ووٹ بٹنے نہ دیں اور صرف ان کے اتحاد کو ہی ووٹ دیں۔

اس کے دو روز بعد میرٹھ میں تقریر کرتے ہوئے اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ اگر کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو "علی" پر اعتقاد ہے تو ہمارا بجرنگ بلی پر ہے۔ "علی" تمھارے ہیں تو بجرنگ بلی ہمارے اور بجرنگ بلی کے ماننے والے ایسی زبان کو برداشت نہیں کریں گے۔

الیکشن کمشن نے ان بیانوں کو ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور مایاوتی پر منگل کی صبح چھ بجے سے 48 گھنٹے تک اور آدتیہ ناتھ پر 72 گھنٹے تک انتخابی مہم چلانے پر پابندی عائد کر دی۔

اس پر مایاوتی نے کمشن کو دلت مخالف قرار دیا اور کہا کہ نریندر مودی اور امِت شاہ فوج کا نام لے کر ووٹ مانگ رہے ہیں مگر ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔

بی جے پی کی امیدوار اور مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے سلطان پور میں تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کو دھمکی دی کہ اگر انھوں نے انھیں ووٹ نہیں دیا تو وہ اپنے کام کے لیے ان کے پاس نہ آئیں۔ وہ ان کے کام نہیں کریں گی۔

ان کے اس بیان پر الیکشن کمشن نے مینکا پر بھی 48 گھنٹے تک پابندی عائد کر دی ہے۔

رام پور سے سماج وادی پارٹی کے امیدوار اعظم خان نے اپنی حریف جیا پردا کے خلاف نازیبا کلمات ادا کیے۔ جس پر وہ بھی 48 گھنٹے تک پابندی کا سامنا کر رہے ہیں۔

تجزیہ کار آلوک موہن کے خیال میں سیاسی پارٹیوں اور خاص کر بی جے پی کی جانب سے اس قسم کی زبان اس لیے استعمال کی جاتی ہے تاکہ مذہبی منافرت پیدا کی جا سکے اور لوگوں کو ورغلا کر ان کے ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔

ان کے بقول بی جے پی کے متعدد رہنما اقلیتوں کے خلاف بیان بازی کر کے ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انجم نعیم کہتے ہیں کہ بی جے پی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پارٹیاں بھی اکثریت کو ناراض کرنا نہیں چاہتیں اس لیے وہ بھی ان کو پسند آنے والی باتیں کر رہی ہیں۔

معاشی مسائل اور خوشحالی کے وعدے

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی نے بڑے کرنسی نوٹ بند کر کے اور غلط طریقے سے جی ایس ٹی نافذ کر کے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

لیکن بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس کی حکومت میں معیشت کو فروغ حاصل ہوا ہے اور بھارت تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی قوت بن گیا ہے۔

مودی اگرچہ اب نوٹ بندی کے اپنے فیصلے کا دفاع نہیں کرتے لیکن کبھی کبھار اس بار ے میں بیان دے دیتے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے جن لوگوں کا کالا دھن ختم ہو گیا تھا وہ ابھی تک نوٹ بندی کو نہیں بھول پائے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

انجم نعیم کہتے ہیں کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے ملکی معیشت کو بہت دھچکہ لگا لیکن اب اس معاملے کی بات ہی نہیں ہوتی۔ وزیرِ اعظم اب تک 79 جلسوں میں تقریر کر چکے ہیں لیکن انھوں نے صرف ایک ریلی میں نوٹ بندی کا ذکر کیا اور وہ بھی اپویشن کو نشانہ بنانے کے لیے۔

ان کے مطابق نوٹ بندی کے وقت خوب بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے کہ اس سے معیشت کو بہت فائدہ ہو گا لیکن اب جب کہ اس سے معیشت کو نقصان پہنچا ہے، تو اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG