رسائی کے لنکس

پاکستان کا بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا اصولی فیصلہ


پاکستان کا بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا اصولی فیصلہ
پاکستان کا بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا اصولی فیصلہ

پاکستان کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔اس بات کا اعلان پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بدھ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تنازعات میں مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم بھارت سے کسی ایک معاملے پر نہیں بلکہ تمام معاملات پر مستقل بنیادوں پر پیشرفت چاہتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بھارت سے دو طرفہ تعلقات کی مکمل بحالی چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی غیر مستقل رکنیت کیلئے بھارت نے پاکستان کی بہت مدد کی تھی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان کی یورپی یونین کے ساتھ تجارت پر بھارت مداخلت نہیں کرے گا۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ بھارت کے ساتھ دو سال بعد مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کردیاگیا ہے۔ اس حوالے سے سیکرٹری سطح کے مذاکرات جاری ہیں ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان مذاکرات کے مثبت نتائج نکلیں گے۔

ایف پی سی سی آئی کی جانب سے زبردست خیر مقدم، پاک بھارت مشترکہ کرنسی کی تجویز

پاکستان کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے فیصلے کا پاکستان کی تاجربرادری نے خیر مقدم کیا ہے ۔ ایف پی سی سی آئی کے صدر سینیٹر حاجی غلام علی نے اسلام آباد سے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ کے نمائندے سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ فرانس اور جرمنی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تجارت کے ذریعے پاکستان اور بھارت کے درمیان قائم دوریاں بھی ختم کی جائیں اور مشترکہ کرنسی رائج کی جائے ۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی حکومتیں ویزا پالیسی میں نرمی کر کے تاجر برادری کو فوری طور پر ” ملٹی پل اینٹری “ ویزا کا اجراسے متعلق تجویز پر بھی عملدرآمد کریں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کو تجارت کے حوالے سے پسندیدہ ملک قرار دینے سے متعلق ہم نے حکومت پاکستان کور واں سال جولائی میں ہونے والے مذاکرات کے موقع پر یہ تجویز دی تھی۔

سینیٹر غلام علی نے کہا کہ وفاقی وزیر تجارت امین فہیم کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران وہ بھی ان کے وفد کے ہمراہ تھے اور انہوں نے محسوس کیا کہ بھارتی تاجر بھی پاکستان سے دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں۔اس دورے میں ان کی ملاقات بھارتی وزیر خارجہ کے علاوہ بھارت کے فیڈریشن ممبران اور تاجر برادری سے بھی ملاقات ہوئی جو انتہائی خوشگوار رہی۔ ہمیں امید ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے دیگر تصفیہ طلب مسائل بھی بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی ۔

انہوں نے مزید کہا کہ دورہ بھارت میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ بھارت ڈبلیو ٹی او ” ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن “ میں پاکستان کی حمایت کرے گا جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں واقع کشیدگی میں کمی آئے گی ۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں نے سارک میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے اور ایک دوسرے کے مفادات کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت اکیسویں صدی میں ایک دوسرے کی مخالفت کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ہم نہ صرف بھارت بلکہ افغانستان اور سینیٹرل ایشیا کے ساتھ بھی بہترین تجارتی تعلقات کے خواہاں ہیں ۔

صدر ایف پی سی سی آئی کے مطابق دنیا بھر میں اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان اور بھارت کو تجارتی روابط میں فاصلوں کا خاتمہ کرنا ہو گا اور دبئی کے بجائے واہگہ بارڈ کے ذریعے نقل و حرکت ہونی چاہیے ۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان دو گھنٹے کا لینڈ روٹ ہے اور تجارت کے لئے براہ راست راستوں کا استعمال کیا جاتا ہے تو نہ صرف قیمتی وقت اور سرمایہ بچے گا بلکہ دونوں ممالک کی عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا بھی موقع ملے گا ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جس طرح جرمنی اور فرانس نے اپنے اختلافات ختم کیے اور کاروبار کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب آئے اور مشترکہ کرنسی نافذ کی گئی اسی طرح پاکستان اور بھارت کو بھی ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے ۔ اس کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی پاکستانی کرنسی میں بھی تجارت ہونی چاہیے کیونکہ اب پاکستانی معیشت ڈالرز کا مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتی ۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر سمیت پانی اور دیگر تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت کا عمل جاری رہنا چاہیے تاہم تجارت کو اختلافات سے الگ رکھنا چاہیے ۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم صرف دو اعشاریہ سات بلین ڈالر ہے جبکہ یہ حجم چھ بلین ڈالر تک ہونا چاہئے جیسا کہ اس بات کا اتفاق دورہ بھارت میں مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں ملکوں کے کامرس سیکریٹریز کی آئندہ ماہ ہونے والی میٹنگ میں مزید تجاویز بھی دی جائیں گی جس سے تجارت میں اضافہ ہو سکے۔ ان کے مطابق موجودہ صورتحال میں نفرتوں کو پیار سے شکست دینے کی ضرورت ہے اور دونوں ممالک کے اگر تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو دفاع کے بجائے ترقیاتی کاموں ، تعلیم اور صحت جیسے شعبوں پر پیسہ خرچ ہو گا جس سے نہ صرف ایک عام آدمی کی زندگی آسان ہو گی بلکہ قومیں بھی خوشحال ہوں گی ۔

XS
SM
MD
LG