رسائی کے لنکس

بھارت میں 38 فیصد خواتین اور 16 فیصد مرد خون کی کمی کا شکار ہیں


عوام کے طرززندگی میں تیز رفتار تبدیلی کے سبب بھارت میں تقریباً 38 فیصد خواتین اور 16 فیصد مرد خون کی کمی کے شکار ہیں۔ 61 سال کی عمر کی خواتین خون کی کمی سے زیادہ متاثر ہیں۔

عالمی یوم صحت کے موقع پر تشخیص و تحقیق کے ایک ادارے ایس آر ایل ڈائیگناسٹک کی جانب سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 21 فیصد مرد غیر فطری شوگر لیول کے شکار ہیں یعنی یا تو انھیں ذیابیطس ہے یا وہ اس کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ جبکہ 17 فیصد خواتین کا شوگر لیول معمول سے زیادہ ہے۔

ادارے کے سرپرست بی آر داس نے ایک بیان میں کہا کہ عوام کو احتیاطی طور پر اپنی صحت کی جانچ کراتے رہنا چاہیے۔رپورٹ کے نتائج اس بات کے متقاضی ہیں کہ عوام تشخیص کی خدمات کے تعلق سے زیادہ بیدار رہیں۔

صحت کے عالمی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے دس ملکوں میں بھارت ایسا ملک ہے جہاں خود کشی کے واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔

وزارت صحت کے ایک محکمے سی سی آریوایم میں سینیر ریسرچ آفیسر ڈاکٹر سید احمد خاں نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بتایا کہ بھارت میں صحت عامہ کی ابتر صورت حال کی وجہ طرززندگی میں تبدیلی اور انسانی اذہان پر دباؤہے۔

انھوں نے خواتین میں خون کی کمی سے متعلق اپنی ریسرچ کے حوالے سے بتایا کہ خون کی کمی کی شکار خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ خورد و نوش میں بے ضابطگی اور مصنوعی وسائل و ذرائع ہیں۔ فریج کا کھانا بھی لوگوں کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے۔ لوگوں کو تازہ اور سادہ غذا لینی چاہیے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے جو پالیسیاں وضع کی ہیں وہ مناسب سمت میں ہیں البتہ انھیں اور پہلے اختیار کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے عورتوں اور بچوں کی صحت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

بھارت میں ہر تیسرا بچہ ناقص غذائیت اور خون کی کمی کا شکار ہے جس کی وجہ سے نچلی ذاتوں اور قبائل کے علاوہ مسلم طبقے میں بھی بچوں کی شرح اموات دیگر طبقات کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

دریں اثنا وزارت صحت کے تمباکو سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں لوگوں میں بیداری لانے کی غرض سے بیڑی سگریٹ کے پیکٹوں پر ملک گیر سطح پر ایک مفت نمبر درج کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر تمباکو نوش افراد کی کونسلنگ کی جائے گی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG