رسائی کے لنکس

بھارت میں انتخابات کے تیسرے مرحلے میں پولنگ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں پارلیمانی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں منگل کو 13 ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقوں کے 117 حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے۔

تیسرے مرحلے میں کل اُمیدواروں کی تعداد 1640 ہے جب کہ 18 کروڑ 85 لاکھ رائے دہندگان نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔

جن علاقوں میں انتخاب ہوا ہے وہاں پولنگ کے لیے دو لاکھ دس ہزار پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے۔

منگل کو ہونے والے مرحلے میں گجرات کی تمام 26، کیرالہ کی 20 اور گوا کی دو، دادر، نگر حویلی، دمن اور دیو کی ایک، ایک نشست پر پولنگ ہوئی۔

اس کے علاوہ آسام، بہار، چھتیس گڑھ، بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر، کرناٹک، مہاراشٹر، اڑیسہ، اترپردیش اور مغربی بنگال سے لوک سبھا کی کچھ نشستوں پر بھی ووٹ ڈالے گئے۔

تری پورہ مشرق میں بھی پولنگ ہو رہی ہے جہاں دوسرے مرحلے میں 18 اپریل کو ووٹ ڈالے جانے تھے مگر نظم و نسق کی صورتِ حال کی وجہ سے ملتوی کر دیے گئے تھے۔

مودی کا ووٹ امت شاہ کا

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی منگل کو احمد آباد جا کر اپنا ووٹ دیا۔ وزیرِ اعظم کا ووٹ گاندھی نگر کے حلقے میں درج تھا جہاں سے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر امت شاہ اُمیدوار ہیں۔

مودی نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد لوگوں سے ووٹ دینے کی اپیل کی اور کہا کہ دہشت گردوں کے آئی ای ڈی سے کہیں زیادہ طاقتور ووٹر آئی ڈی ہوتا ہے۔

اس سے قبل انھوں نے گاندھی نگر جا کر اپنی والدہ 99 سالہ ہیرابین مودی سے ملاقات کی اور ان سے آشیرباد لیا۔

مودی ان انتخابات میں دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم کے عہدے کے اُمیدوار ہیں۔ ان کی والدہ اپنے چھوٹے بیٹے پنکج مودی کے ساتھ گاندھی نگر کے قریب رائسان گاؤں میں رہتی ہیں۔

کئی اہم اُمیدواروں کی قسمت داؤ پر

آج جن اہم اُمیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہو گا ان میں گاندھی نگر گجرات سے بی جے پی کے صدر امت شاہ، کیرالہ کے علاقے ویاناڈ سے کانگریس کے صدر راہول گاندھی، اترپردیش کے مین پوری سے سماج وادی پارٹی کے سرپرست ملائم سنگھ یادو، کیرالہ کے ترو اننت پورم سے سینئر کانگریس رہنما ششی تھرور، دھوبری سے بدر الدین اجمل، رامپور سے اعظم خان اور جیا پردا اور مدھے پورہ، بہار سے راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر شرد یادو قابلِ ذکر ہیں۔

منگل کو جن حلقوں میں پولنگ ہو رہی ہے ان میں سے بیشتر پر بی جے پی کو سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ منگل کو پولنگ کے لیے کھلی کل 117 میں سے 61 نشستیں بی جے پی کے پاس ہیں۔ گجرات کی تمام 26 نشستوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔

انتخابات میں کانگریس اپنی پوزیشن بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے پاس 117 میں سے صرف 17 نشستیں ہیں۔

اس سے قبل 11 اور 18 اپریل کو دو مرحلوں میں لوک سبھا کے 186 حلقوں کے لیے ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔

اب تک کے مراحل میں بی جے پی کی پوزیشن کمزور

ابتدائی دو مرحلوں میں بی جے پی کی پوزیشن بالخصوص مغربی اترپردیش میں اور بالعموم اکثر حلقوں میں کمزور رہی ہے۔ یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ تیسرے مرحلے میں بھی ایسی سیٹیں کافی ہیں جنہیں بی جے پی ہار سکتی ہے۔ بی جے پی کو بیشتر حلقوں میں اپوزیشن امیدواروں سے سخت مقابلہ درپیش ہے۔

آج کی پولنگ ختم ہونے کے ساتھ ہی تقریباً نصف بھارت اور پورا جنوبی بھارت ووٹ دے چکا ہو گا۔

پولنگ کا عمل شروع ہونے کے بعد سے سینکڑوں مقامات پر ووٹنگ مشینوں میں خرابی کی اطلاعات ہیں۔ کانگریس اُمیدوار ششی تھرور نے الزام لگایا ہے کہ ان کے حلقے میں کسی کو بھی ووٹ دو، وہ صرف بی جے پی کو جا رہا ہے۔ انھوں نے اُمید ظاہر کی کہ الیکشن کمشن اس معاملے پر غور کرے گا۔

اترپردیش کے رامپور میں بھی ووٹنگ مشینوں میں خرابی پائی گئی۔ سماج وادی پارٹی کے اُمیدوار اعظم خان کے بیٹے عبد اللہ اعظم نے الزام لگایا ہے کہ ان کے حلقے میں 300 مشینیں کام نہیں کر رہی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس ووٹروں کو ڈرا رہی ہے۔

بی جے پی کے انتخابی ایشوز

حکمراں بی جے پی اور خاص طور پر وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے قوم پرستی اور قومی سلامتی کو انتخابی ایشو بنایا گیا ہے۔ وزیرِ اعظم پلوامہ حملے میں ہلاک ہونے والے جوانوں اور آپریشن بالاکوٹ میں شامل ہونے والے فوجیوں کے نام پر ووٹ مانگ چکے ہیں۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

وہ اپنی تقریروں میں بار بار پاکستان کا بھی نام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان سے ڈرنے کی اپنی پالیسی ترک کر دی ہے۔

وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے اندر گھس کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی اور اب بھارت کے خلاف کارروائی کرنے کی ہمت دہشت گردوں کو نہیں ہو گی۔

انتخابات کے دوران اپوزیشن کی جانب سے مہنگائی، بے روزگاری، معیشت کی ابتری، وعدوں کی عدم تکمیل، کسانوں کی خود کشی، خواتین کے خلاف جرائم اور رافیل جنگی طیاروں کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کے مسائل اٹھائے جا رہے ہیں۔

ایٹم بم کا ذکر

مودی نے اتوار کو ایک تقریر میں ایٹم بم کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان بار بار ایٹم بم کی دھمکی دیتا تھا۔ یہاں کے اخبارات بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے۔

انھوں نے عوام سے سوال کیا کہ "تو کیا ہم نے دیوالی کے لیے ایٹم بم بنائے ہیں؟"

ان کے اس بیان پر بھارت میں بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا وزیرِ اعظم نیوکلیئر بم پہلے استعمال نہ کرنے کی بھارت کی پالیسی بدلنے جا رہے ہیں۔

بعض اخبارات نے اداریے لکھ کر اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت پوری دنیا میں ایک ذمہ دار نیوکلیئر ملک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان کے اس بیان سے بھارت کی یہ ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔

مودی نے یہ بھی کہا کہ "میں نے پاکستان کو دھمکی دی تھی جس سے ڈر کر پاکستان نے پائلٹ ابھی نندن کو رہا کیا۔ ایک امریکی عہدے دار نے کہا تھا کہ مودی نے 12 میزائل تیار کر رکھے ہیں۔ وہ قتل کی رات تھی۔"

سادھوی پرگیہ کو اُمیدوار بنانے کی مذمت

بی جے پی کی جانب سے مالیگاؤں بم دھماکوں کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو اُمیدوار بنائے جانے پر سیاسی حلقوں میں نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔ بی جی پی نے انھیں بھوپال سے سینئر کانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ کے مقابلے میں اتارا ہے۔

وزیرِ اعظم مودی، امت شاہ اور پوری بی جے پی نے نے پرگیہ کو اُمیدوار بنائے جانے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ انھیں غلط پھنسایا گیا تھا۔

پرگیہ ٹھاکر نے انسدادِ دہشت گردی اسکواڈ کی ممبئی شاخ کے سابق سربراہ ہیمنت کرکرکے کے خلاف بھی قابلِ اعتراض بیان دیا ہے جس پر ان کی شدید مذمت ہو رہی ہے۔ کرکرے ممبئی حملوں کے دوران حملہ آوروں کی گولی لگنے سے ہلاک ہوئے تھے۔

پرگیہ نے کہا تھا کہ چونکہ کرکرکے نے انھیں مالیگاؤں دھماکے میں پھنسایا تھا اور ان کو زد و کوب کیا تھا اس لیے انھوں نے انھیں شراپ (بددعا) دے دیا تھا اور وہ مارا گیا۔

انھوں نے بابری مسجد کے انہدام پر بھی قابلِ اعتراض بیان دیا ہے جس پر الیکشن کمیشن نے انہیں نوٹس جاری کیے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG