رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر کے گجر اور بکروال قبائل کی نقلِ مکانی


بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے گجر اور بکروال قبائل تواتر سے نقلِ مکانی کر رہے ہیں۔ ان قبائل کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برس کے دوران کم سے کم 10،000 کنبے بھارتی ریاستوں پنجاب، ہماچل پردیش، ہریانہ اور اُترا کھنڈ کو منتقل ہو کر وہاں مستقل بنیادوں پر آباد ہوچکے ہیں۔

ہجرت کرنے کے اس رجحان میں حالیہ برسوں میں تیزی آئی اور اس سال جنوری میں ضلع کٹھوعہ کے رسانا گاؤں میں ایک آٹھ سالہ بکروال لڑکی کے ساتھ پیش آنے والی مبینہ اجتماعی زیادتی اور قتل کے واقعے کے بعد نقلِ وطن کرنے کا یہ سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔

ان قبائل کے نمائندوں کے مطابق، نقلِ وطن کے اس رجحان کی وجوہات میں مویشیوں کے لئے چارے اور جگہ کی کمی، جنگلات اور سرکاری اراضی کے استعمال پر حال ہی میں عائید کی گئی پابندیاں، ریاست میں کئی سال سے جاری شورش اور عسکریت، بھارتی فوج کی طرف سے بالائی علاقوں خاص طور پر حد بندی لائین کے قریب واقع چراگاہوں تک رسائی پر روک، سرحدوں پر آئے دن پیش آنے والے فائرنگ کے واقعات اور رسانا کے واقعے سے جموں کے علاقے میں پیدا شدہ فرقہ وارانہ تناؤ شامل ہیں۔

غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، کشمیر کے دونوں حصوں میں 34 لاکھ گجر اور بکروال رہائش پزیر ہیں۔ سرکاری اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ منقسم ریاست کے بھارتی علاقے میں بسنے والے ان قبائل کے افراد کی کل تعداد 13 لاکھ دکھائی گئی ہے، جو سب کے سب سُنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔

گجر عمومی طور پر زراعت پیشہ ہیں، مزدوری کرتے ہیں یا پھر بھینس پالتے ہیں جبکہ بکروال اپنا روزگار خصوصی طور پر بھیڑ بکریاں پال کر کماتے ہیں۔ یہ موسم میں تبدیلی کے ساتھ ہر چھہ ماہ کے بعد اپنے مال مویشیوں سمیت ریاست کے دو بڑے خطوں وادی کشمیر اور جموں کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ لیکن یہ نقلِ مکانی عارضی نوعیت کی ہوتی ہے۔

ان قبائل میں شامل ایسے افراد کی تعداد انتہائی کم ہے جن کے اپنے گھر یا زمینیں ہیں۔

جیسا کہ مشاہدے میں آیا ہے گجر اور بکروال قبائل میں شامل وہ کنبے جو ریاست میں کسی غیر منقولہ جائیداد کے مالک نہیں ہیں اور اپنا بیشتر وقت خاص طور پر جموں، سامبہ، کٹھوعہ، کشتواڑ ریاسی اور ادھمپور اضلاع میں گزارتے چلے آئے ہیں خاموشی کے ساتھ بھارتی پنجاب اور ہماچل پردیش اور یہاں تک کہ طویل مسافت طے کرکے ہریانہ اور اُتراکھنڈ کو منتقل ہو رہے ہیں۔

یہ صورتِ حال ان قبائل کے لیڈروں کے نزدیک تشویشناک ہے۔ ’ٹرائیبل ریسرچ اینڈ کلچرل فاؤنڈیشن‘ (ٹی آر سی پی) کےسربراہ، ڈاکٹر جاوید راہی کا کہنا ہے کہ"یہ جموں و کشمیر کے عوام خاص طور پر ان قبائل کے لئے انتہائی تشویش کا معاملہ ہے۔ ان لوگوں کو جنگلات اور سرکاری اراضی سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ دراصل یہ خانہ بدوش لوگ ہیں جن کی اپنی زمینیں یا گھر نہیں ہیں"۔

راہی کے بقول، ’’پہلے ہی اُترا کھنڈ کے ہری دراو علاقے میں راجہ جی نیشنل پارک اور گیندی کھٹا مقامات کے درمیان ایسے سینکڑوں عارضی گھر دیکھے جاسکتے ہیں جہاں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر سے گئے ہوئے گجر رہائش پزیر ہیں‘‘۔

سرکردہ گجر لیڈر الطاف احمد نے بتایا ہے کہ "یہ افسوسناک اور قابلِ تشویش بات ہے کہ ہمارےفرقے کے لوگ ریاست کو چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حکام لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس انخلاء کو روکنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی ہے"۔

گجر اور بکروال لیڈروں نے الزام لگایا ہے کہ مقامی انتظامیہ نے ان قبائل کے کنبوں کو اُن زمینوں سےزبردستی نکال دیا جن پر وہ سالہا سال سے رہ رہے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے اُس وقت کے وزیرِ جنگلات چوہدری لال سنگھ اور اُن کے پیش رو بھلی بھگت کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ لیکن لال سنگھ نے اس کی سختی کے ساتھ تردید کی اور کہا کہ جنگلات کی اراضی کو عدالت کے حکم کے تحت غیر قانونی قبضے سے خالی کرایا گیا اور اس میں کسی طرح کا مذہبی امتیاز نہیں برتا گیا۔

گجر لیڈر اور ریاستی اسمبلی کے رکن جاوید احمد رانا نے لال سنگھ کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے استفسار کیا کہ "اگر اُن کا کہنا صحیح ہے تو جموں کے مضافات میں واقع گول گجرال کے علاقے کو ہی جہاں صرف گجر رہ رہے تھے کیوں اس مہم کا خاص نشانہ بنایا گیا، جبکہ رنبیر کنال کے کناروں پر اور جموں، کٹھوعہ، سامبہ اور راجوری اضلاع میں مختلف مقامات پر اسی طرح کی زمینوں پر موجود اکثریتی ہندو فرقے کے کمیونٹی سنٹرس اور جھونپڑیوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا"۔

رانا نے الزام لگایا کہ "جنگلات اور سرکاری اراضی کو خالی کرانے کی یہ مہم امتیاز پر مبنی تھی اور اس کے دوران صرف مسلمان گجر اور بکروال طبقوں کو ہدف بنایا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے حلیفوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمان قبائل کو ہراسان کیا، تاکہ ان میں خوف و ہراس پیدا ہوجائے اور وہ ان علاقوں کو چھوڑ کر چلے جائیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ"بدقسمتی سے حکومت انتظامیہ کو ہمارے نظریہ تکثیریت پر مبنی آئین کی روح کے مطابق چلانے میں ناکام ہوگئی خاص طور پر سامبہ اور کھٹوعہ کے اضلاع میں"۔

عہدیداروں نے ان الزامات کی سختی کے ساتھ تردید کی اور کہا کسی بھی شخص کے ساتھ زیادتی کی شکایت کا فوری ازالہ کیا جاتا ہے۔

ایک مقامی سماجی تنظیم 'جموں ٹیم' کے چیئرمین زورآور جموال نے ان اطلاعات اور الزامات کو بے بنیاد قرار دیدیا کہ اس خطے کے گجر اور بکروال قبائل کو اکثریتی فرقے کی طرف سے ہراساں کیا جارہا ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہوں نے ریاستی گورنر کے ساتھ اپنی ایک حالیہ ملاقات کے دوران اُن پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ انسدادِ تجاوزات مہم کے نام پر گجر اور بکروال قبائل کو ہراسان نہ کیا جائے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG