رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں نوجوانوں کے لیے 'اصلاحی کیمپ' بنانے کی تجویز


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بِپن راوت کی اس تجویز کی توثیق کی ہے کہ کشمیری نوجوانوں میں اُن کے بقول بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر قابو پانے کے لیے انہیں 'ڈی ریڈیکلائزیشن' (اصلاحی) کیمپوں میں رکھا جائے۔

سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بھارتی کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل پولیس دلباغ سنگھ کی توجہ جنرل راوت کے بیان کی طرف مبذول کرائی گئی اور ان سے استفسار کیا گیا کہ کیا واقعی اصلاحی کیمپ قائم کرنے کی ضرورت ہے؟

جواب میں دلباغ سنگھ نے کہا کہ "ایسے نوجوانوں کی اصلاح کے لیے جو راستے سے بھٹک گئے ہیں، ایسا کرنا ایک اچھا قدم ہو گا۔"

دلباغ سنگھ نے پاکستان اور اس کے مختلف اداروں پر کشمیری نوجوانوں میں شدّت پسندانہ نظریات کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کشمیر کی نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے اور غلط راستے پر چل پڑی ہے۔

پولیس سربراہ نے کہا کہ حالات کو مدِ نظر رکھ کر اگر "شدت پسندانہ نظریات کے مخالف کیمپ" قائم کیے جاتے ہیں تو اس فیصلے کا استقبال کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جمّوں و کشمیر پولیس کو کچھ نوجوانوں سے تفتیش کے دوران پتا چلا کہ وہ خطرناک حد تک شدت پسندانہ نظریات سے متاثر ہوئے ہیں، جو ایک تشویش ناک امر ہے۔

دلباغ سنگھ کا کہنا تھا کہ اگر سول سوسائٹی کے اچھے لوگوں اور مذہبی ماہرین کی نگرانی میں ان 'ڈی ریڈیکلائزیشن' مراکز کو چلایا جاتا ہے تو اس سے شدت پسندانہ خیالات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

خیال رہے کہ بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمّوں و کشمیر میں شدّت پسندانہ نظریات سے لڑنے کے لیے 'ڈی ریڈیکلائزیشن کیمپس' قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت (فائل فوٹو)
بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت (فائل فوٹو)

انہوں نے کشمیری نوجوانوں کو ان مجوزہ کیمپوں میں رکھنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ "شدت پسندی کا توڑ کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے ایسا کشمیر میں ہوتے دیکھا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کم عمر بچوں کو شدّت پسند بنایا جا رہا ہے۔ اُن کی شناخت کر کے انہیں ڈی ریڈیکلائزیشن کیمپوں میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔"

انسانی حقوق کے کارکنوں نے جنرل راوت اور بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کے سربراہ کے ان بیانات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے کشمیری عوام سے متعلق بھارتی فوج اور پولیس میں اعلیٰ سطح پر پائی جانے والی سوچ کا پتا چلتا ہے۔

انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے سرکردہ کشمیری قانون دان پرویز امروز نے کہا ہے کہ جنرل راوت کا بیان سیاسی نوعیت کا ہے جو کشمیر میں پائی جانے والی اصل صورتِ حال کے برعکس ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیری نوجوان انتہا پسندانہ خیالات بالکل نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنے سیاسی مطالبات کو منوانے کے لیے سرگرم ہیں۔ ان کے بقول وہ دولتِ اسلامیہ سے متاثر ہیں اور نہ ہی طالبان والی سوچ رکھتے ہیں۔

پرویز امروز کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو اصلاح کی ضرورت ہے تو وہ ان کے بقول بھارت کے ہندو انتہا پسند ہیں۔

پرویز امروز کے مطابق ہندو انتہا پسند ملک میں ہندوتوا کے قیام کے لیے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جو تشدد اور جبر کو بڑھاوا دیتی ہیں۔

دوسری جانب پاکستان نے جنرل راوت کے بیان پر شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان قرار دیا تھا۔

اسلام آباد میں دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے ریمارکس ایک انتہا پسندانہ سوچ اور ذہنی دیوالیہ پن کی عکاسی کرتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG