رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں بلدیاتی انتخابات: ٹرن آؤٹ سے متعلق متضاد دعوے، اپوزیشن کے تحفظات


بھارت کی جانب سے گزشتہ سال پانچ اگست کو اس کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد مختلف مراحل میں بلدیاتی انتخابات کرائے جا رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بلدیاتی انتخابات کا مقصد بھارتی حکومت کے پانچ اگست کے اقدامات کے بعد اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کے ذریعے کشمیری عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش ہے۔

بھارتی کشمیر میں ضلعی ترقیاتی کونسلز (ڈی ڈی سی) کے علاوہ شہری بلدیاتی اداروں کی خالی نشستوں پر بھی الیکشن کرائے جا رہے ہیں۔

یہ انتخابی عمل نومبر کے آخری ہفتے میں شروع ہوا تھا اور دسمبر کے آخر میں اختتام پذیر ہوگا۔

چوتھے مرحلے میں پولنگ پیر کی صبح شروع ہوئی۔ پہلے تین مراحل میں مجموعی طور پرساٹھ فی صد رائے دہندگان نے ووٹ ڈالے جسے بھارتی حکام بہتر ٹرن آؤٹ قرار دے رہے ہیں۔

جموں و کشمیر کے الیکشن کمشنر کیول کمار شرما نے بتایا کہ یہ خوشی اور اطمینان کی بات ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ اُن کے بقول حکومت کو اُمید ہے کہ آئندہ کے مراحل میں بھی لوگ گھروں سے باہر نکل کر اپنا ووٹ ڈالیں گے۔

وادی کے مقابلے میں جموں میں انتخابی گہما گہمی

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کئی علاقوں خاص طور پر جموں میں لوگ انتخابی عمل میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں۔

تاہم کچھ علاقوں میں بشمول پلوامہ کے، ووٹرز ٹرن آؤٹ یعنی ووٹ ڈالنے کی شرح بہت کم دیکھنے میں آئی ہے۔ یہاں نو فی صد سے بھی کم ووٹرز نے ووٹ ڈالے۔

الیکشن کمیشن نے ابتداً پہلے تین مراحل میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح بالترتیب 52، 49 اور 50 فی صد ظاہر کی تاہم بعدازاں کمیشن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا دُوردراز سے نتائج آنے کے بعد ووٹرز ٹرن آؤٹ 64، 65 اور 61 فی صد رہا۔

البتہ بعض اپوزیشن جماعتوں نے ووٹرز ٹرن آؤٹ سے متعلق اعداد و شمار پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پہلی بار کشمیر میں الیکشن ہو رہے ہیں۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پہلی بار کشمیر میں الیکشن ہو رہے ہیں۔

کیا عوام کے مسائل حل ہوں گے؟

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ضلع ترقیاتی کونسلوں کے لیے انتخابات پہلی مرتبہ کرائے جا رہے ہیں۔

الیکشن کمشنر کیول کمار شرما کا کہنا ہے کہ ان انتخابات سے لوگوں کو اپنے نمائندے خود چننے کا اختیار مل رہا ہے جس سے لامحالہ ان کے بنیادی مسائل بھی حل ہوں گے۔

اُن کے بقول ہر ضلع کونسل سے عوام اپنے 14 نمائندے منتخب کر رہے ہیں۔

حکام کا دعویٰ ہے کہ ان انتخابات کے بعد ضلع کونسلوں کو مزید اختیارات ملیں گے اور انہیں اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے خطیر رقوم کے فنڈز دیے جائیں گے۔

ضلع ترقیاتی کونسلوں کے ان انتخابات کے ساتھ ساتھ پنچایت اور شہری بلدیاتی اداروں کے ضمنی چناوٴ بھی مرحلہ وار کرائے جا رہے ہیں۔

ناقدین اس انتخابی عمل کو محض جموں و کشمیر میں حالات کو معمول کے مطابق دکھانے کی نئی دہلی کی ایک کوشش سمجھتے ہیں۔

لیکن حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی﴾ کا دعویٰ ہے کہ یہ کوئی جعلی یا دکھاوے کے الیکشن نہیں جس کا ثبوت لوگوں کی اس عمل میں بھرپور شرکت ہے۔

کیا کشمیر میں امن قائم ہو گا؟

بی جے پی کے ایک لیڈر وبودھ گپتا نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ہی ممکن ہو سکتا تھا۔

اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر کے عوام نے ان انتخابات کو ایک تہوار کے طور پر لیا اور بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے اپنے گھروں سے نکلے ہیں۔

وبودھ گپتا نے کہا کہ بی جے پی کشمیر کو امن کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے۔

جموں و کشمیر کے عوام کیا سوچتے ہیں؟

جموں و کشمیر کے ایک رہائشی نجیب خان کا استدلال تھا کہ ووٹ بندوق سے زیادہ طاقت ور ہے۔ لہذٰا مسائل کے حل کے لیے انتخابی عمل ہی کو اختیار کرنا چاہیے۔

البتہ بعض شہریوں کو انتخابی عمل پر تحفظات بھی ہیں۔ ایک شہری برہان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ انتخابات اس لیے کرائے جا رہے ہیں تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ کشمیر میں حالات معمول پر آ گئے ہیں۔

اُن کے بقول پانچ اگست کے اقدامات کے بعد عام لوگوں کے لیے جو مشکلات پیدا ہوئیں اس کا سنجیدگی سے کوئی ازالہ نہیں کیا گیا۔ لہذٰا یہ انتخابی عمل بھی محض ڈرامہ اور دکھاوے کے سوا کچھ نہیں اور نہ ہی اس سے کوئی بڑی تبدیلی آئے گی۔

برہان کی تائید کرتے ہوئے سرینگر کے ایک باشندے افتخار گُل نے بتایا کہ یہ ایک بے کار مشق ہے۔ اُن کے بقول کئی اُمیدوار ایسے ہیں جنہیں کوئی جانتا تک نہیں۔

اُن کے بقول کشمیر میں جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے اور جن لوگوں کو عوام کے حقیقی نمائندے ہونے کا دعویٰ تھا وہ پانچ اگست کے بعد سے منظر نامے سے ہٹ گئے یا اُنہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔

افتحار کہتے ہیں کہ ان انتخابات میں کئی ایسے امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں جو لوگوں کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان انتخابات کا مقصد کیا ہے۔ شاید وہ خود بھی اس سے نابلد ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف

حزبِ اختلاف کا الزام ہے کہ گزشتہ پندرہ ماہ کے دوراں ظلم و جبر میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے حال ہی میں سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال کے دوران کشمیر میں ظلم و جبر میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

اُن کے بقول قدغنوں کا دائرہ بڑھا دیا گیا ہے۔ بی جے پی ملک کو تقسیم کر رہی ہے، لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑایا جارہا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ بلدیاتی انتخابات کے نام پر جمہوریت کا قتل ہو رہا ہے۔

انتخابات میں کون سی جماعتیں مدمقابل ہیں؟

انتخابات میں اصل مقابلہ بی جے پی اور جموں و کشمیر میں حال ہی میں قائم ہونے والے پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) کے درمیان ہو رہا ہے۔ تاہم آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد بھی قسمت آزمائی کر رہی ہے۔

پی اے جی ڈی کا کہنا ہے کہ اس کے امیدوارں کو ان کی حفاظت کے نام پر محفوظ مقامات پر عملاً قید کردیا گیا ہے اور ان کی عوام تک رسائی کو ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

پی اے جی ڈی کے رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ بی جے پی امیدواراں کو انتخابی مہم چلانے کے لیے سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔

محبوبہ مفتی نے جو پی اے جی ڈی کی نائب صدر ہیں۔ اُں کا کہنا ہے "میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کیسے انتخابات ہیں جن میں اپوزیشن اُمیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں ہے۔

تجزیہ کار اور بھارتی روزنامے ٰدی ٹریبیونٰ کے سابق ریزیڈنٹ ایڈیٹر ارون جوشی کو بھی اس بات پر حیرانی ہے کہ امیدواروں کے ووٹروں سے میل ملاپ کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں حائل ہیں۔

وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان انتخابات میں ترقیاتی امور اور لوگوں کو درپیش دوسرے مسائل کی نشان دہی کرنے کے بجائے انتخابی مہم کو قوم پرست اور قوم دشمنٰ نعروں تک محدود کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پانچ اگست کے اقدامات کے بعد یہ پہلے انتخابات ہیں جن کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان کے انعقاد کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے اس پر اُنہیں اعتراض ہے۔

اُن کے بقول ان انتخابات کو قوم پرستوں اور قوم دُشمنوں کے درمیان ایک مقابلہ بنا دیا گیا ہے جو جمہوریت اور بھارت کے سیکولر تشخص کی نفی ہے۔

جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی نئی لہر
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:00 0:00

یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبۂ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہو رہا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ "مجھے نہیں لگتا کہ سیاسی طور پر یہاں کوئی پُر امن صورتِ حال ہے۔ جمہوری لحاظ سے یہ کوئی مثالی سال نہیں تھا۔ سرحدوں پر تناوٴ ہے۔ ایل او سی پر پاکستان کے ساتھ آئے دن جھڑپیں ہو رہی ہیں۔"

نور احمد بابا کے مطابق لداخ میں بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی ہے۔ لہذٰا ان حالات میں انتخابات کے انعقاد کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

بلدیاتی انتخابات کی اہمیت کا اعتراف

لیکن پی اے جی ڈی کو بھی ضلع ترقیاتی کونسلز (ڈی ڈی سی) کے ان انتخابات کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں۔

سابق وزیر اور 'پی اے جی ڈی' کے ترجمانِ سجاد غنی لون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان انتخابات سے گراس روٹ سطح پر جمہوریت مضبوط ہو گی۔

ان کے بقول انتخابات کے نتیجے میں قائم کی جانے والی ضلع ترقیاتی کونسلز کو مقامی انتظامی امور چلانے کا مکمل اختیار ہوگا۔

ضلع ترقیاتی کونسلز کے انتخابات میں 1475 اُمیدوار میدان میں ہیں جن میں 296 خواتین اُمیدوار بھی ہیں۔

کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات ہیں جب کہ کرونا وبا سے بچنے کے لیے بھی خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG