رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: چار صحافیوں کے گھروں پر پولیس کے چھاپے، صحافتی تنظیموں کی مذمت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس نے بدھ کی صبح چار مقامی صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کے اور اہل خانہ کے زیرِ استعمال موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور دستاویزات اپنی تحویل میں لے لی ہیں۔

کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے ان چھاپوں کے بعد پولیس نے ان چاروں صحافیوں شوکت احمد موٹا، بلال احمد میر، اظہر قادری اور شاہ عباس کو مقامی تھانے بلایا اور ان سے پوچھ گچھ بھی کی۔​

بعد ازاں ان چاروں صحافیوں کو شام میں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن جمعرات کی صبح انہیں دوبارہ پیش ہونے کا کہا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ نے ان صحافیوں سے فون پر رابطے کی کوشش کی لیکن جواب موصول نہیں ہو سکا۔​

ان صحافیوں میں سے ایک کے والد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بدھ کو صبح سویرے مقامی پولیس اور بھارت کے وفاقی حفاظتی دستوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا اور گھر کی تلاشی لی۔

ان کے بقول، اس چھاپے کے دوران پولیس نے موبائل فونز، لیپ ٹاپ وغیرہ اپنے تحویل میں لے لیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کے بیٹے کو ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ ان کا پورا خاندان خوف زدہ ہے۔ وہ اپنے بیٹے کے بارے میں بے حد فکر مند ہیں۔

چھاپے کیوں مارے گئے؟

کشمیر کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے جمعرات کی شام جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ چار صحافیوں کے متنازع بلاگ سائٹ چلانے والے سرغنہ کے ساتھ روابط ہیں جنہیں ٹھوس ثبوت ملنے پر گرفتار کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ چاروں صحافیوں کے زیرِ استعمال موبائل فونز میں پاکستان، ترکی اور سعودی عرب کے فون نمبرز ملے ہیں اور وہ کئی ورچول نمبروں کے ساتھ بھی رابطے میں تھے۔

وجے کمار کے مطابق صحافیوں کے گھروں پر چھاپے سری نگر کی ایک خصوصی عدالت سے وارنٹ حاصل کرنے کے بعد مارے گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "یہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کا معاملہ نہیں۔ میں ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد اور صحافتی تنظیموں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ جھوٹی خبریں نہ پھیلائیں اور اس کیس کے بارے میں غلط قصے کہانیاں بیان کر کے اس میں بلا ضرورت مداخلت نہ کریں۔"

پولیس افسر وجے کمار کے مطابق یہ ایک انتہائی حساس کیس کی تحقیقات کا معاملہ ہے۔ ٹھوس ثبوت ملنے پر انہیں (صحافیوں کو) گرفتار کیا جائے گا۔

اس سے قبل وجے کمار نے ایک مقامی اخبار کو بتایا تھا کہ یہ چھاپے پولیس کی طرف سے رواں برس جولائی میں درج کیے گئے ایک فوجداری مقدمے کے سلسلے میں مارے گئے ہیں۔ ان کے بقول پولیس نے اس کے لیے عدلیہ سے باضابطہ اجازت نامہ لیا تھا۔

پولیس نے جولائی 2021 میں سرینگر کے کوٹھی باغ تھانے میں تعزیراتِ ہند اور غیرقانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کی مختلف دفعات کے تحت ایک مقدمہ درج کیا تھا۔ بعد ازاں جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر پانچ افراد کو گرفتار کرکے بڑی تعداد میں موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور دیگر الیکٹرانک آلات اور دستاویزات قبضے میں لی گئی تھیں۔

پولیس نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ اس نے وائٹ کالر دہشت گردوں کے ایک سنڈیکیٹ کو بے نقاب کردیا ہے۔ پولیس کے دعوے کے مطابق اس گروپ میں شامل افراد جن میں سرینگر میونسپل کارپوریشن کے اعلیٰ افسر، ان کا بیٹا اور بیٹی شامل ہیں، سیاست دان، سرکاری افسران، صحافیوں اور وکلا کو ان کی طرف سے خفیہ طور پر چلائی جانے والی بلاگ ویب سائٹ 'کشمیر فائٹ' پر نام ڈال کر خوف زدہ کر رہے تھے اور انہیں دھمکیاں دے رہے تھے۔

پولیس نے اس گروہ کے مبینہ سرغنہ اور چار دیگر ملزمان کو گرفتار اور بڑی تعداد میں ڈیجیٹل آلات قبضے میں لے کر کہا تھا کہ ​امید ہے کہ تفتیش اور ڈیٹا کے جائزے کے بعد سرکردہ صحافی سید شجاعت بخاری، وکیل بابر قادری اور تاجر ست پال نشچل کے قتل کے محرکات اور ان واقعات میں ملوث افراد کا پتا چل جائے گا۔

وجے کمار کا کہنا تھا کہ اس کیس کی تحقیقات اور ملزمان سے پوچھ گچھ کے دوران اِن چار صحافیوں کے بھی نام سامنے آئے تھے۔ ان کے بقول پولیس نے تصدیق اور تیکنیکی شواہد کے بعد ہی ان صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ​گرفتار افراد نے، جن میں سری نگر میونسپل کارپوریشن کے سیکریٹری محمد اکبر صوفی، ان کا بیٹا نازش یثرب رحمٰن اور بیٹی تابش اکبر رحمٰن، ان کے منگیتر جاوید خالد اور نجی کالج کا ایک طالب علم رفیق مخدومی شامل ہیں، چند اہم معلومات فراہم کی تھیں۔

واضح رہے کہ صحافیوں کے گھروں پر چھاپے 'کشمیر فائٹ' نامی ایک بلاگ سائٹ پر پانچ مقامی اخبارات کے مدیروں کے بارے میں دھمکی آویز مواد چھاپنے کے ایک روز بعد مارے گئے ہیں۔

البتہ بھارت میں وزارتِ الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حکم پر 'فائٹ کشمیر' ویب سائٹ کو بلاک کردیا گیا ہے۔

کشمیری صحافیوں کی تشویش میں اضافہ

ادھر بین الاقوامی صحافتی تنظیموں رپورٹر زود آؤٹ بارڈرز(آر ایس ایف) اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے چار کشمیری صحافیوں کے گھروں پر پولیس کے چھاپے اور پوچھ گچھ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

آر ایس ایف نے ایک ٹوئٹ میں اسے خوف زدہ کرنے کا عمل قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ تنظیم کے بقول صحافت کوئی جرم نہیں ہے۔

سی پی جے نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارتی کشمیر میں پولیس کو صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارنے اور انہیں ہراساں کرنے کے عمل کو فوری طور پر روکنا چاہیے اور ضبط کیے گئے سامان کو واپس کردینا چاہیے۔

واشنگٹن میں سی پی جے کے ایشیا پروگرام کے کو آرڈینیٹر اسٹیون بٹلر نے کہا ہے کہ 'بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں صحافیوں کو بار بار ہراساں کرنے کے عمل کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔'

علاوہ ازیں مقامی صحافیوں نے سوشل میڈیا پر پولیس کی کارروائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکام اس سلسلے میں صورتِ حال کو واضح کریں۔

بعض صحافیوں نے سوال کیا ہے کہ ان کے ساتھیوں کے گھروں پر چھاپے مارنا اور پھر انہیں تھانے بلا کر پوچھ گچھ کرنا کہیں ان اقدامات یا کارروائیوں کا حصہ تو نہیں جس کا مقصد بھارتی کشمیر میں 'مشکل حالات' میں کام کرنے والے صحافیوں کو ہراساں اور خوف زدہ کرنے اور انہیں پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی سے روکنا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1989 میں شورش کے آغاز کے ساتھ ہی علاقے کے صحافیوں کے لیے ایک نئی جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔ اور پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں وفاق کے کنٹرول والے علاقوں کا درجہ دینے کے بعد وہاں کئی ماہ تک مکمل انفارمیشن بلیک آؤٹ رہا تھا۔ تمام قسم کی مواصلاتی سہولیات معطل رہی تھیں اور صحافیوں کے لیے کام کرنا زیادہ مشکل ہو گیا تھا۔

گزشتہ پچیس ماہ کے دوران صحافیوں کو ہراساں کرنے، انہیں پولیس کے سامنے پیش ہو کر رپورٹس اور خبر کے عمل کے بارے میں وضاحتیں پیش کرنے۔ اپنی خبر کے ذرائع بتانے کے لیے ان پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ کئی صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ کے واقعات بھی پیش آئے ہیں جب کہ کئی صحافیوں کو جرنلسٹس کوٹا کے تحت فراہم کی گئی رہائشی سہولت بھی بغیر وجہ واپس لینے کی بھی اطلاعات ہیں۔

پولیس نے رواں سال اپریل میں علیحدگی پسند عسکریت پسندوں اور حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپوں اور امن و امان کی صورتِ حال پیدا ہونے پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر جائے وقوع کی کوریج پر پابندی بھی لگا دی تھی۔​

البتہ پولیس عہدیدار وجے کمار نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ تقریر اور اظہارِ رائے کی آزادی کو مناسب پابندیوں سے مشروط کیا جاسکتا ہے۔ اُن کے مطابق آئینِ ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت کسی دوسرے شخص کی زندگی کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔ ان کے بقول، انکاؤنٹر کی جگہ مصروفِ عمل پولیس اہلکاروں اور دوسرے حفاظتی دستوں کے جائز کام میں مداخلت نہیں کی جانی چاہیے۔

جون 2020 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے ایک نئی میڈیا پالیسی بنائی تھی۔ جس کے تحت اسے 'جعلی'، 'غیر اخلاقی'، مضمونِ خیال یا عبارت کی چوری یا 'ملک دشمن' خبروں کا فیصلہ کرنے کا مجاز بنایا گیا تھا۔ اور اسے ذرائع ابلاغ کے متعلقہ ادارے۔ صحافی اور مدیر کے خلاف تعزیزی کارروائی کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو گیا تھا۔

میڈیا مکمل آزاد ہے؛ حکومت کا دعویٰ

تاہم متعلقہ عہدیدار اس میڈیا پالیسی کا دفاع کرتے ہیں۔ جموں کشمیر انتظامیہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ 'جموں و کشمیر میں امن و امان اور سلامتی کے مسائل درپیش ہیں۔

پولیس اور حکومتی اداروں کی ان کارروائیوں کے خلاف کشمیر، بھارت اور عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ کے حلقوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

لیکن جموں و کشمیر انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ علاقے میں میڈیا کو بغیر کسی دھونس یا دباؤ کے کام کرنے کی مکمل آزادی ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG