رسائی کے لنکس

بھارتی سپریم کورٹ: سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کے لیے بنائی گئی 'الیکٹورل بانڈز' اسکیم غیر آئینی قرار


بھارت کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے حکومت کی جانب سے شروع کی گئی 'الیکٹورل بانڈز' اسکیم کو غیر آئینی اور من مانا قرار دیتے ہوئے رد کردیا ہے۔

جمعرات کو سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ اسکیم رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) یعنی معلومات تک رسائی کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں بینچ نے الیکٹورل بانڈز کو فوری طور پر روکنے کا حکم دیا ہے اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کو اس کے تحت اب تک دیے گئے تمام چندے کی تفصیل چھ مارچ تک الیکشن کمیشن آف انڈیا کو فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔

بینچ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ 13 مارچ تک یہ تفصیل اپنی ویب سائٹ پر شیئر کرے۔

مبصرین کے مطابق پارلیمانی انتخابات سے قبل عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے سنایا جانے والا یہ فیصلہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے سال 2018 میں یہ اسکیم لانچ کی تھی اور اس کا مؤقف تھا کہ اس سے بلیک منی یعنی کالے دھن پر روک لگانے میں مدد ملے گی۔

سپریم کورٹ نے اپنے متفقہ فیصلے میں کہا کہ کالے دھن کو روکنے کے لیے دوسرے طریقے بھی ہیں۔ اس کے لیے الیکٹورل بانڈز اسکیم ضروری نہیں ہے۔ بلیک منی کو روکنے کے لیے معلومات تک رسائی کے قانون کی خلاف ورزی مناسب نہیں۔

عدالت نے کہا کہ آئین اس معاملے میں اپنی آنکھیں بند نہیں رکھ سکتا۔

واضح رہے کہ حکومت نے اس اسکیم کو معلومات تک رسائی کے قانون کے دائرے میں لانے سے انکار کردیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے والوں کی شناخت اور چندے کی رقم خفیہ رکھی جاتی ہے۔

متعدد آر ٹی آئی کارکنوں نے اس کی تفصیلات طلب کیں لیکن حکومت نے یہ کہتے ہوئے تفصیلات پیش کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ اسکیم مذکورہ قانون کے دائرے میں نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کے مطابق سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کا لازمی حصہ ہیں۔ لہٰذا عوام کو اپنی پسند کی پارٹی کا انتخاب کرنے کے لیے پارٹیوں کو ہونے والی فنڈنگ کی معلومات ضروری ہیں۔

عدالت کے مطابق بے تحاشہ کارپوریٹ فنڈنگ غیر جانب دار انتخابات کے نظریے کو پامال کرتی ہے۔ اس سے چندہ دینے والے تاجروں، صنعت کاروں اور حکومت کے مابین ساز باز محسوس ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو ہدایت دی ہے کہ اب تک جو بانڈز کیش نہیں ہوئے ہیں وہ واپس کردیے جائیں۔

اسکیم کے ضوابط کے مطابق کوئی بھی انفرادی یا وہ سیاسی جماعت بانڈز خرید سکتی ہے جو 'عوامی نمائندگی ایکٹ 1951' کے تحت لوک سبھا یا اسمبلی انتخابات میں ایک فی صد سے زائد ووٹ حاصل کرچکی ہو۔

اسکیم کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت مجاز بینک کے توسط سے اپنے اکاؤنٹ میں بانڈز کیش کرا سکتی ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے سال 2019 میں اس اسکیم کو ختم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ وہ اس کے خلاف دائر درخواستوں پر غور کرے گی کیوں کہ حکومت اور الیکشن کمیشن نے اہم ایشوز اٹھائے ہیں۔

اس اسکیم کو ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) نامی تنظیم، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) اور ایک شہری ڈاکٹر جے ٹھاکر نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ الیکٹورل بانڈز کو رازداری میں رکھنے سے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ میں شفافیت متاثر ہوتی اور معلومات تک رسائی کے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

حکومت نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ سیاسی فنڈنگ میں وائٹ منی استعمال بینکوں کے توسط سے ہو رہا ہے۔ اس کے مطابق چندہ دینے والوں کی شناخت کو رازداری میں رکھنا اس لیے ضروری ہے تاکہ انہیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے کسی انتقام کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اس معاملے پر سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی نے کہا کہ تھا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کی دفعہ 19(1) سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کے ذرائع کی معلومات کے مکمل حق کی ضمانت نہیں دیتی۔

ان کے مطابق معلومات کے حصول کے بنیادی حق کا دائرہ لامحدود نہیں ہے اور عوام ہر بات اور ہر چیز کو جاننے کا حق نہیں رکھ سکتے۔

سماعت میں اے ڈی آر کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کا کہنا تھا کہ چوں کہ یہ بانڈز خفیہ ہیں اس لیے یہ بدعنوانی کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ حکمران اور اپوزیشن پارٹیوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہیں کرتے۔

ان کا مؤقف تھا کہ جب سے اس اسکیم کو لانچ کیا گیا ہے اس کے توسط سے ملنے والا چندہ دیگر ذرائع سے ملنے والے چندے سے کہیں زیادہ ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 2018 میں اسکیم کے لانچ ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کو 27 ہزار 133 الیکٹورل بانڈز کے توسط سے 16 ہزار کروڑ روپے بطورِ چندہ دیے گئے ہیں۔

ان میں سے 2022 اور 2023 کے درمیان بی جے پی کو بانڈز کے توسط سے 1300 کروڑ روپے کا چندہ ملا ہے۔ یہ رقم کانگریس کو ملنے والے 171 کروڑ روپے کے چندے سے کئی گنا زائد ہے۔

بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ اس سے نوٹ پر ووٹ کی طاقت پھر سے قائم ہوگی۔

پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور کمیونی کیشن انچارج کے رام رمیش نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ سپریم کورٹ نے مودی حکومت کی بہت زیادہ مشہور الیکٹورل بانڈز اسکیم کو پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کیے جانے والے قوانین اور آئین کے منافی قرار دیا ہے۔

کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے کہا کہ مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کا یہ ایک اور ثبوت ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی نے اس اسکیم کو رشوت اور کمیشن لینے کا ایک ذریعہ بنایا تھا۔

سی پی آئی ایم کے رہنما سیتا رام یچوری نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے ان کے دلائل کو صحیح ثابت کیا ہے۔ انہوں نے کیس لڑنے والے وکیل شاداں فراست اور دیگر وکلا کو مبارک باد پیش کی۔ دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی فیصلے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔

تاہم حکومت یا حکمراں جماعت بی جے پی کی جانب سے اس پر تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG