رسائی کے لنکس

پانچ ہزار سال پہلے وادی سندھ میں کیا پکایا اور کھایا جاتا تھا


دہلی کے نیشنل میوزیم میں وادی سندھ کی تہذیب کے کھانوں کی نمائش کا ایک اسٹال۔ پانچ ہزار سال پہلے بھی آج سے ملتے جلتے کھانے کھائے جاتے تھے۔
دہلی کے نیشنل میوزیم میں وادی سندھ کی تہذیب کے کھانوں کی نمائش کا ایک اسٹال۔ پانچ ہزار سال پہلے بھی آج سے ملتے جلتے کھانے کھائے جاتے تھے۔

گزشتہ دنوں نئی دہلی میں منعقد ہونے والی ایک منفرد نمائش میں ایسے کھانے پیش کیے گئے جو پانچ ہزار سال پہلے وادئ سندھ میں پکائے جاتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی کھانے آج بھی جنوبی ایشیائی گھروں میں پکائے جا رہے ہیں۔

آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی سندھ ایک ترقی یافتہ تہذیب تھی اور اس کے شہر بہت ترقی یافتہ تھے۔ نمائش میں کھانے پینے کی ایسی اشیا کا تصور پیش کیا گیا جو اس دور کے لوگ استعمال کرتے تھے۔

نئی دہلی کے نیشنل میوزیم میں نمائش کے ایک حصے میں مٹی کے برتن میں کالی چنے کو دھیمی آنچ پر ابلتے دکھایا گیا۔ یہ معمولی نوعیت کا کھانا نہیں تھا۔ اسے اناج اور سبزیوں کے ساتھ اسی طرح پکایا جا رہا تھا جیسے پانچ ہزار سال پہلے ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی تہذیب کے دور میں لوگ پکاتھے تھے۔ یہ تہذیب شمال مغربی بھارت اور پاکستان کے کچھ حصوں میں پھل پھول رہی تھی۔

آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کی خوراک میں بیشتر وہ چیزیں شامل تھیں جو جنوبی ایشیا میں اب بھی استعمال کی جاتی ہیں۔

نمائش کی کیوریٹر سومی چترجی نے بتایا کہ بہت سے کھانے ایسے ہیں جو اب بھی مقبول ہیں اور جن کا تعلق ہمار ے فطری ذائقے سے ہے اور جو ہماری زندگیوں کے لیے ضروری خیال کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر چاول اور روٹی۔ اب یہ زیادہ نرم اور زیادہ نفیس ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دانت بھی کمزور ہو چکے ہیں۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ گاجر، لہسن اور کیلے کا وسیع استعمال کیا جاتا تھا۔ روٹیوں کی تیاری کا تصور غالباً باجرے سے آیا۔ جند مصالحہ جات مثلاًٍ ہلدی اور دار چینی کو ذائقے کے لیے استعمال میں لایا جاتا تھا۔ تاہم ان کی تیاری کا طریقہ انہیں ایک منفرد حیثیت دیتا تھا۔

شیف سبیاچی گورائی کا کہنا ہے کہ کھانا تیار کرنے کے برتن وغیرہ مثلاًٍ مٹی کی ہانڈیاں سادہ لیکن جدید انداز کی تھیں۔ نمائش کی کیوریٹر سومی چترجی نے بتایا کہ ان ہانڈیوں کا پیندا دبیز ہوا کرتا تھا تاکہ پکاتے وقت اس میں دراڑ نہ پڑے۔ ایسے برتنوں کی تیاری میں ریت کی کچھ اتنی مقدار شامل ہوتی تھی جس سے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ کم وقت میں گرم نہ ہو جائے، تاکہ برتن میں نچلے حصے کا کھانا جلنے سے محفوظ رہے۔ لوگ آگ کو کم بیش بھی کر سکتے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ قدیم تہذیب میں کھانے کی روایات میں جدید زمانے کے لیے بھی بہت سبق ہے۔ اس زمانے میں سبزیوں کے چھلکے نہیں اتارے جاتے تھے۔ کھانا دھیمی آنچ پر پکایا جاتا تھا اور استعمال کیے جانے والے پانی کا شوربہ بنا لیا جاتا تھا۔

یہ باتیں آج کی ضروریات کے لحاظ سے اتنی ہی افادیت رکھتی ہیں۔ اس طرح کھانوں کی غذائیت برقرارر ہتی ہے اور انہیں زیادہ دیر تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور خراب ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

نمائش میں ایسے اسٹالز بھی تھے جہاں دالوں کے اسٹیو اور گرم پتھروں پر کچے کیلے کی ترکاری اور باجرے سے بنی پڈنگ تیار کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ تاہم اس دور کے کھانوں میں آلو دکھائی نہیں دیتا۔ غالباً اس دور میں انسان آلو سے واقف نہیں ہوا تھا۔

نمائش میں موجود ایک طالبہ مدھیوی مبرا منی نے کہا کہ ہم نے بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کے جو طریقے سیکھے ہیں ان کا تعلق اسی زمانہ قدیم سے بنتا ہے۔

نمائش میں جہاں وادئ سندھ کی تہذیب کے بارے میں لوگوں کو جاننے کا موقع ملا وہاں ان کے کھانوں سے زمانہ قدم کے ساتھ رشتوں اور تعلق کا بھی پتا چلا۔

XS
SM
MD
LG