رسائی کے لنکس

عمران خان کی گرفتاری 'فوجی کوُ' لگتی ہے، رکن کانگریس شرمین: وائٹ ہاؤس اور بلنکن کا ردعمل بھی آ گیا


سابق وزیراعظم عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے کے لیےآ رہے ہیں۔ فائل فوٹو
سابق وزیراعظم عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے کے لیےآ رہے ہیں۔ فائل فوٹو

پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان کی اسلام آباد میں عدالت کے احاطے سے گرفتاری پر امریکی ردعمل آ گیا ہے۔ وائٹ ہاوس اور محکمہ خارجہ نے زور دیا ہے کہ جمہوری اصولوں اور ملکی آئین اور قانون کا احترام کیا جائے ، جبکہ امریکی رکن کانگریس بریڈ شرمین نے کہا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری 'فوجی بغاوت' معلوم ہوتی ہے نہ کہ انصاف کا غیر جانبدارانہ اطلاق'۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہیں کہ عمران خان کو اب چوبیس گھنٹے ’لائیو سٹریم' کیا جا ئے تاکہ ان کے حامیوں کے اندر ان کی زندگی سے متعلق خدشات دور کیے جا سکیں۔

رکن کانگریس بریڈ شرمین کا ردعمل:

وائس آف امریکہ کی نمائندہ صبا شاہ خان کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں امریکی کانگریس مین بریڈ شرمین نےکہا کہ "عمران خان کی گرفتاری درست ا قدام نہیں ہے ۔ میں امید رکھتا ہوں کہ مسٹر خان کی دن کے چوبیس گھنٹے لائیو سٹریم کی جائے تا کہ پوری دنیا کو معلوم ہو کہ وہ محفوظ ہیں ۔ اور ان کے وکلا ، پی ٹی آئی کے اراکین اور ان کے خاندان کو ان تک رسائی ملنی چاہئے ۔ میرے ایک مشیر ڈاکٹر آصف محمود ہیں اور ان کے پاکستان میں رابطے ہیں ۔ پورے ملک میں پی ٹی آئی کے رہنما اور ورکرز کو گرفتا ر کیا جا رہا ہے ۔یہ اس دلیل سے مطابقت نہیں رکھتا کہ یہ گرفتاری بدعنوانی کی وجہ سے ہے۔ بدعنوانی کے کیس میں کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ اس (گرفتاری) سے تو یہ ایک 'ملٹر ی کو' معلوم ہوتا ہے نہ کہ انصاف کا غیر جانبدارنہ اطلاق' ۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم چاہیں گے کہ پاکستان میں انتخابات وقت پر ہوں ۔ تاکہ سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے سکیں، اور جو کامیاب ہوں وہ ملک چلا سکیں ۔ میں پاکستا ن کے قوانین کا ماہر نہیں ہوں اور نہ ہی ان تمام مقدموں پر کوئی رائے رکھتا ہوں جو ان کے خلاف ہیں لیکن جو کچھ آج میں نے وڈیو میں دیکھا ہے وہ جمہوریت نہیں'۔

سینیٹر بن کارڈین

امریکی سینیٹر بن کارڈین نے پاکستان کی صورتِ حال کے بارے میں وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفصیلات آ رہی ہیں۔ ہم یہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ ہم امن قائم کرنے میں کیسے مدد کر سکتے ہیں چنانچہ ہم صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔

سینیٹر کرس وان ہالن

پاکستان میں سیاسی افراتفری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں امریکی سینیٹر کرس وان ہالن نے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پاکستان کی صورتِ حال پر تشویش ہے۔ ان کا ارادہ ہے کہ وہ امریکی محکمہ خارجہ میں کلیدی لوگوں سے اس بارے میں بات کریں گے۔

انہوں نے کہا پاکستان کو انتخابات کی راہ اختیار کرنا ہوگی اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ انتخابات کی تاریخ پر سب متفق ہو جائیں تاکہ پاکستان کے عوام منصفانہ اور آزادانہ طریقے سے اپنا لیڈر چن سکیں۔

رکن کانگریس آندرے کارسن

ایک اور مریکی کانگریس مین آندرے کارسن نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں حکومتی ناقدین کو نشانہ بنانے کے لیے حالیہ اقدامات تشویشناک ہیں۔

’میں حکومت پاکستان کی جانب سے اظہار اور اجتماع کی آزادی کے لیے زیادہ عزم دکھانے کی اپیل کرنے والے ساتھیوں کے ساتھ شامل ہوں۔ میں طویل عرصے سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان مضبوط تعلقات کا حامی رہا ہوں، لیکن پاکستانی حکومت کی جانب سے مظاہرین اور حکومتی ناقدین کو نشانہ بنانے کے حالیہ اقدامات شدید تشویش کا باعث ہیں۔ جمہوریت کی راہ میں اس بندشن کو دور کرنے اور اپنے تعلقات میں بہتری کا عمل برقرار رکھنے کے لیے ہمیں پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر رکھنا چاہیے‘‘

وائٹ ہاؤس کا ردعمل:

عمران خان کی گرفتاری پر وائٹ ہاوس کا ردعمل آ گیا ’ امریکہ، کسی ایک سیاسی امیدوار یا سیاسی جماعت یا اس کے مقابل کسی اور کے بارے میں کوئی موقف نہیں رکھتا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں جمہوری اصولوں اور قانون کی حکمرانی کا احترام کیا جائے۔ اور اس بارے میں مزید معلومات پاکستان کی حکومت دے سکتی ہے۔‘

وزیر خارجہ انٹنی بلنکن

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری پر اپنے ردعمل میں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ ’میں نے پاکستان میں صورت حال پر رپورٹیں دیکھی ہیں۔ ہم صرف یہ چاہیں گے کہ پاکستان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ قانون اور آئین کے مطابق ہو‘۔

سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے لیے آمد کے موقع پر گرفتاری اور اس کے ردعمل میں پاکستان کے مختلف حصوں میں احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات رونما ہونے کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک سے بھی تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔

زلمے خلیل زاد

افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق مندوب زلمے خلیل زاد نے عمران خان کی گرفتاری پر اپنی سلسلے وار ٹویٹس میں اسے افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اشارے موجود ہیں کہ پارلیمنٹ عمران خان کو نااہل قرار دینے کا کہہ سکتی ہے۔ ٹویٹ میں ان کا مزید کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ حکومت نے عمران خان کو ریاست کا اولین دشمن قرار دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

انہوں نے انتباہ کیا کہ ایسے اقدامات پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی بحران کو مزید گہرا کر دیں گے۔ اس کے نتیجے میں بین الاقوامی حمایت کم ہو جائے گی۔ پہلے ہی کچھ ممالک سرمایہ کاری کے طے شدہ منصوبے معطل کر چکے ہیں۔ اور اب تک آئی ایم ایف کی مدد بھی واضح نہیں ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے دفتر کی جانب سے جاری ہونے والی ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد عمران خان کے حامیوں اور امن و امان نافذ کرنے والے اہل کاروں کے درمیان جھڑپوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

اپنی ٹویٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور ان کا کوئی بھی ردعمل قانونی، ضرورت کے تحت اور عدم امتیاز کے اصولوں کے مطابق ہو۔

مائیکل گوگلمین

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک تھنک ٹینک وڈرو ولسن انٹرنیشل سینٹر میں جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کے لیے سینئر پروگرام ایسوسی ایٹ مائیکل کوگلمین نے عمران خان کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیڈر کی گرفتاری سرخ لکیر ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق کرپشن سے ہے۔ لیکن خان نے حال ہی میں ان الزامات کا اعادہ کیا ہے کہ پچھلے سال ان کے قتل کی کوشش کے پیچھے ایک اعلیٰ سیکیورٹی عہدے دار کا ہاتھ تھا۔ ایک طویل اور ڈروانے بحران میں مزید اضافہ۔

حسین حقانی

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور اسکالر حسین حقانی نے اپنی ٹویٹ میں ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے جس میں بینر پر لکھا ہے کہ صرف عمران خان یا مارشل لا، نہ پی پی، نہ پی ایم ایل این اور نہ پی ڈی ایم۔ کہا ہے کہ حیرت ہے کہ کچھ لوگ یہی چاہتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG