جہاں دنیا کے کئی ممالک کی پارلیمان میں عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے وہیں عورتوں کی سیاسی عمل میں شرکت میں اب بھی بہت سے چیلنج موجود ہیں۔ یہ بات انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار الیکٹورل سسٹمز کی جیسیکا ہیوبر نے امریکی کانگریس کی عمارت میں منعقدہ ایک تقریب میں کہی۔
اس وقت عراقی پارلیمان میں عورتوں کی تعداد 26 فیصد، افغانستان میں 28 فیصد، مشرقی تیمور میں 38 فیصد اور روانڈا میں 64 فیصد ہے۔ یہ تمام ممالک شدید جنگوں اور تنازعات کی زد میں رہے ہیں۔
جیسیکا نے کہا کہ امن و سلامتی بحال کرنے کے لیے شروع ہی سے عورتوں اور لڑکیوں کی سیاسی عمل میں شمولیت کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے تنازعات کا خاتمہ ہوتا ہے اور پائیدار امن اور جمہوریت کو فروغ ملتا ہے۔
’’ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جنگ شروع ہوئی اور جنگ ختم ہوئی اور اب امن ہے اور اب جہوریت قائم ہو گئی۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک مستقل عمل ہے اور ہمیں اس کے آغاز میں ہی عورتوں کو اس میں شامل کرنا چاہیئے۔‘‘
1995سے ٹیکساس سے ایوان نمائندگان کی رکن شیلا جیکسن لی نے کہا کہ جب عورتیں الیکشن میں حصہ لیتی ہیں، سیاسی عمل میں شریک ہوتی ہیں اور شہری ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی ہیں تو وہ چیزوں کو تبدیل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ مگر بہت دفعہ جب عورتیں بااختیار ہوں تو پرانی روایات خطرے سے دوچار ہوتی ہیں۔
’’جس طرح ملالہ جسے اس لیے گولی ماری گئی کیونکہ وہ سکول جانا چاہتی تھی، جس طرح ہلری کلنٹن جو صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل ہیں، جس طرح بینظیر بھٹو جو میری بہت اچھی دوست تھیں، انتخابی مہم کے دوران ان کے ساتھ ہونے والے المیے کا مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔‘‘
ہارورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر پیپا نورس نے کہا کہ اگرچہ عورتوں کو بااختیار بنانے میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں مگر ہمیں ان کے حل کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔ انہوں نے عورتوں کے لیے کوٹہ مختص کرنے کی تجویز دی۔