رسائی کے لنکس

ایران اور سعودی عرب کا سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان


ایران اور سعودی عرب نے سات برس سے منقطع سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اس پیش رفت کا اعلان جمعے کو بیجنگ میں چار روز سے جاری دونوں ملکوں کے سیکیورٹی حکام کے مذاکرات کے بعد کیا گیا۔ ان مذاکرات میں چین نے ثالث کا کردار ادا کیا۔

سفارتی تعلقات سے متعلق سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ بھی طے پا گیا ہے جس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔

معاہدے پر ایران کی جانب سے سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی شامخانی جب کہ سعودی عرب کے مشیر برائے قومی سلامتی مساعد بن محمد العیبان نے دستخط کیے ہیں۔

مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ "تہران اور ریاض سفارتی تعلقات بحال کرنے پر متفق ہو گئے ہیں اور دو ماہ کے اندر سفارت خانے کھولنے سمیت دیگر اُمور طے کر لیے جائیں گے۔"

جنوری 2016 میں سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم نمرالنمر کا بغاوت اور دہشت گردی کے جرم میں سر قلم کر دیا گیا تھا جس کے بعد مشتعل مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔
جنوری 2016 میں سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم نمرالنمر کا بغاوت اور دہشت گردی کے جرم میں سر قلم کر دیا گیا تھا جس کے بعد مشتعل مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسری کی داخلی سلامتی، خود مختاری اور اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں گے۔

دونوں ملکوں نے 2001 میں طے پانے والے سیکیورٹی تعاون معاہدہ بحال کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ جب کہ حالیہ پیش رفت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور سرمایہ کاری سے متعلق دو طرفہ معاہدے بھی بحال تصور کیے جائیں گے۔

سعودی عرب اور ایران نے ثالثی کا کردار ادا کرنے پر چین کا شکریہ ادا کیا ہے جب کہ اس سے قبل 2021 اور 2022 میں مذاکرات کے لیے سہولت کاری کرنے والے ممالک عمان اور عراق سے بھی اظہارِ تشکر کیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق چین کی وزارتِ خارجہ نے اس بارے میں تاحال کوئی باضابطہ ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔

وائٹ ہاؤس میں نیشنل سیکیورٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے معاہدے سے باخبر ہے اور یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہتا ہے۔

خیال رہے کہ حالیہ برسوں میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان یمن کے معاملے پر تنازع مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کا محور رہا۔ سعودی عرب کا مؤقف تھا کہ ایران یمن میں حوثی باغیوں کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب ایران اپنی سفارتی تنہائی کے لیے ریاض کی مغربی ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ کی گئی کاوشوں کو ذمے دار قرار دیتا ہے۔

ماہرین کے مطابق دونوں ممالک شام سمیت مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ کا حصہ رہے ہیں۔

سعودی عرب نے 2016 میں ایران کے ساتھ اس وقت سفارتی تعلقات ختم کردیے تھے جب سعودی عرب میں ایک شیعہ عالمِ دین کو سزائے موت دینے پر تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ ہوا تھا۔

جنوری 2016 میں سعودی عرب میں بغاوت اور دہشت گردی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ایک شیعہ عالم نمرالنمر کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔ اس پر ایران میں شدید ردِعمل سامنے آیا تھا اور مشتعل مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے اور مشہد میں سعودی قونصل خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔

ایک سینئر ایرانی اہلکار نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔

اہلکار نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ شامخانی سپریم لیڈر کی ہدایت پر چین گئے اور معاہدے پر دستخط کیے۔

اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG