رسائی کے لنکس

لاہور میں پی ٹی آئی کارکن کی ہلاکت؛ 'قاتل مل بھی جائے بیٹا واپس نہیں آئے گا'


پاکستان کے شہر لاہور میں بدھ کو پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم کے دوران ہلاک ہونے والے پی ٹی آئی کارکن علی بلال کی ہلاکت تاحال معمہ بنی ہوئی ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کا الزام ہے کہ علی بلال عرف ظلِ شاہ کی ہلاکت پولیس تحویل میں تشدد سے ہوئی جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس کے بعد حقائق سامنے آئیں گے۔

انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے تین دن میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔

دو رُکنی انکوائری کمیٹی میں ڈی آئی جی ایلیٹ فورس پنجاب صادق علی اور ایس ایس پی عمران کشور شامل ہیں۔

وائس آف امریکہ نے انکوائری کمیٹی میں شامل افسران سے رابطہ کیا لیکن وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔ البتہ پولیس ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ علی بلال کی ہلاکت کے لیے بنائی جانے والی انکوائری ٹیم کو 50 سےزائد ویڈیوز اورسی سی ٹی وی فوٹیجز موصول ہو چکی ہیں۔


علی بلال عرف ظلِ شاہ کون تھا؟

علی بلال عرف ظل شاہ کا تعلق لاہور کے علاقے راج گڑھ سے ہے۔ جو گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان تحریکِ انصاف سے وابستہ تھے۔

علی بلال کے والد لیاقت علی بتاتے ہیں کہ اُن کے بیٹے کی ہلاکت کی خبر اُن کے لیے بڑا صدمہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے لیاقت علی کا کہنا تھا کہ اُن کا بیٹا معصوم اور بھولا بھالا تھا اور اس کی کسی سے کوئی دُشمنی نہیں تھی۔ وہ ہر وقت ہنستا مسکراتا رہتا تھا۔

لیاقت علی کا کہنا تھا کہ اُن کے بیٹے کے قاتل سامنے آ بھی جائیں تو بھی اُن کا بیٹا واپس نہیں آئے گا۔

لیاقت علی کے مطابق اُن کے بیٹے کی عمر 40 برس تھی۔ وہ اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔عمران خان کی محبت میں وہ ہر روز زمان پارک جاتے تھے۔

اُن کے بقول ظلِ شاہ کی عمران خان سے ملنے کی شدید خواہش تھی جو وہ اپنے ساتھ لے کر ہی دنیا سے رُخصت ہو گیا۔



پولیس کو ویگو گاڑی میں علی بلال کو لانے والوں کی تلاش

پولیس ذرائع کے مطابق انکوائری ٹیم نے علی بلال کو اسٹریچر پر لانے والےایدھی اہلکاروں اور اسپتال عملے کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں۔

تفتیش کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے پرائیویٹ کیمروں کی ویڈیوز بھی حاصل کرنا شروع کر دی ہیں۔

پولیس کے مطابق انکوائری ٹیم کو علی بلال کو ویگو ڈبل کیبن گاڑی میں اسپتال لے کر آنے والے دو افراد کی تلاش ہے۔ علی بلال کو اسپتال لانے والے دونوں افراد بہانہ بنا کر اسپتال سے غائب ہوئے تھے۔

ابتدائی تحقیقات

ابتدائی تحقیقات کے مطابق پی ٹی آئی کارکن بلال کو دو نامعلوم افراد سیاہ رنگ کی گاڑی میں سروسز اسپتال لاہور لائے جہاں ڈاکٹرز نے بلال کی موت کی تصدیق کر دی جس کے بعد دونوں افراد فرار ہوگئے۔

کلوزسرکٹ فوٹیجز سے ملنے والی تصاویر سے شناخت اور تلاش شروع کر دی گئی۔ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق علی بلال کے سر پر چوٹ کا گہرا زخم پایا گیا، تاہم موت کی وجوہات حتمی رپورٹ میں واضح ہوں گی-



پوسٹ مارٹم رپورٹ

علی بلال کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اُن پر تشدد کی تصدیق ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق علی بلال کی موت دماغ میں گہری ضرب آنے کے بعد خون زیادہ بہنےسے ہوئی۔ مقتول کے جگر اور لبلبہ میں خون جمع ہونا بھی موت کی وجہ بنا۔

رپورٹ کے مطابق دماغ میں خون جمع ہونے سے علی بلال کا بلڈ پریشر انتہائی کم ہوگیاتھا۔ مقتول کے جسم کے حساس اعضا پر بھی تشدد کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق علی بلال کی کھوپڑی کا ایک حصہ بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔

پنجاب حکومت کا مؤقف

صوبہ پنجاب کے نگران وزیرِ صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت ہی افسوس ناک ہے۔ کسی کی بھی جان چلی جانا اچھی بات نہیں۔

ڈاکٹر جاوید اکرم بتاتے ہیں کہ جس وقت علی بلال کو اسپتال لایا گیا وہ خود سروسز اسپتال میں موجود تھے۔ اُسے مردہ حالت میں سروسز اسپتال لاہور لایا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سےگفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ علی بلال کو پیٹ پر، سر پر اور مختلف جگہوں پر متعدد چوٹیں آئی ہیں جس کا تذکرہ پولیس نے بھی کیا ہے۔ ایسا ہی پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے جس کی تفصیلی رپورٹ فارنزک رپورٹ آنے کے بعد آئے گی۔

نگران وزیرِ صحت پنجاب نے مزید کہا کہ بطور ڈاکٹر اور بطور وزیرِ صحت وہ صرف یہ بتا سکتے ہیں کہ علی بلال کا کوئی بھی زخم گولی لگنے سے نہیں آیا تمام زخم تشدد کے ہیں۔

پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان بدھ کو ہونے والے تصادم کا مقدمہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سمیت چار کارکنوں کے خلاف درج کيا گیا ہے۔ مقدمے ميں دہشت گردی، املاک کو نقصان پہنچانا، قتل اور اقدام قتل سمیت سنگین دفعات شامل کی گئيں ہیں۔ 13 پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے اور کارکن علی بلال کی ہلاکت بھی ایف آئی آر کے متن میں شامل ہے۔

دوسری جانب علی بلال کی ہلاکت پر اُن کے والد لیاقت علی نے بھی تھانہ ریس کورس میں اندراجِ مقدمے کی درخواست دی ہے جس میں نگران وزیرِ اعلٰی پنجاب، وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ، سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ اور سب انسپکٹر ریحان کو نامزد کیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG