رسائی کے لنکس

ایران چین اسٹریٹجک معاہدہ: خطے کی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی؟


چین ایران اجلاس کے بعد، ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اپنے چینی ہم منصب، وینگ یی کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے۔ (فائل)
چین ایران اجلاس کے بعد، ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اپنے چینی ہم منصب، وینگ یی کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے۔ (فائل)

ایران اور چین کے درمیان 25 سال کے اسٹریٹجک معاہدے کے لیے بات چیت آخری مراحل میں ہے۔ ایران میں اس معاہدے پر عام ردِ عمل کیا ہے؟ خطے کے لیے اس کے کیا معنی ہیں؟ اور امریکہ کے نقطہ نظر سے اس معاہدے کے کیا اثرات ہوں گے؟

اس بارے میں تہران میں مقیم پاکستانی پروفیسر اور صحافی ڈاکٹر راشد نقوی، امریکہ کی فارن پالیسی کونسل کے نائب صدر ایلان برمن اور برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے رکن افضل خان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

اس بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے، ڈاکٹر راشد نقوی نے کہا کہ ایران کے لیے جو صورت حال پیدا کر دی گئی ہے اور جس طرح اسے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہی نکلنا تھا۔ اسے بھی دوستوں کی تلاش ہے اور ان دوستوں کے لئے اس نے مشرق کی طرف دیکھنا شروع کیا جس کے نتیجے میں چین کے ساتھ معاہدے تک کی نوبت پہنچی۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ ایران کے اندر بھی اس معاہدے کی مخالفت ہو رہی ہے اور کچھ سابق صدور اور پارلیمنٹ کے بعض ارکان نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایران امریکہ سے نکل کر چین کے چنگل میں پھنس جائے گا۔ وہ لوگ یورپ کے ساتھ قریبی تعلقات کی وکالت کرتے ہیں۔ تاہم ڈاکٹر نقوی نے کہا کہ ایرانی حکومت میں اس معاملے میں سب ایک پیج پر ہیں اور کوئی اختلاف نہیں ہے۔

ایلان برمن نے کہا کہ یہ امریکہ اور ایران دونوں کے لئے ایک انتہائی اہم بات ہے۔ ٹرمپ حکومت نے ایران پر دباؤ ڈالنے اور عالمی سطح پر اسے الگ تھلگ کرنے اور صحیح رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرنے کے لئے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگایا اور اب یہ دباؤ کام کر رہا تھا جیسا کہ اس کی کرنسی کی زبوں حالی اور معاشی بدحالی سے ظاہر ہو رہا تھا۔ اور، وہ کسی ایسے بین الاقوامی پارٹنر کی تلاش میں تھا جس سے اسے سہارا مل سکے۔ ایسے میں چین ایران کے لئے ایک گیم چینجر کے طور پر سامنے آیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ معاہدہ ہو گیا، جس کے امکانات بہت ہیں کہ ہو جائے گا، تو بیجنگ اور تہران کے درمیان تعلقات اور گہرے ہو جائیں گے۔ ایران کا چین پر انحصار بہت بڑھ جائے گا اور چین ایران کی سیکیورٹی کا ضامن بن جائے گا۔ یوں چین حال کے مقابلے میں آئندہ امریکہ سے براہ راست زیادہ مقابلے اور مسابقت کی پوزیشن میں آجائے گا۔ اور ایران مغرب کی بجائے مشرق پر انحصار بڑھا دے گا۔

افضل خان کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ چین سے کس طرح معاملات کئے جائیں اس بارے میں یورپ اور امریکہ کے درمیان اب کچھ زیادہ ہم آہنگی باقی نہیں رہی۔ اور ایران اس وقت تعزیرات کے سبب جس صورت حال سے دو چار ہے اسے اپنے دوست اور ہمنوا تو تلاش کرنے ہی تھے خواہ وہ مغرب سے ہوں یا مشرق سے۔

تفیصلی آڈیو رپورٹ سننے کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کیجئے۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:13:14 0:00


XS
SM
MD
LG