رسائی کے لنکس

'دہشت گردوں کے خلاف پاکستان حدود میں کارروائی کر سکتے ہیں'


میجر جنرل محمد باقری (فائل فوٹو)
میجر جنرل محمد باقری (فائل فوٹو)

ایران کے عسکری عہدیدارکے بیان کو پاکستان میں مبصرین غیرذمہ دارانہ قرار دیتے ہیں۔

ایران کے اعلیٰ ترین فوجی عہدیدار نے پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ پاک ایران سرحد پر اپنی جانب عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے بصورت دیگر تہران ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو خود نشانہ بنائے گا۔

پیر کو ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا' کے مطابق مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری کا کہنا تھا کہ صورتحال کا اس طرح جاری رہنا قابل قبول نہیں ہے۔

انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستانی حکام سرحدوں پر قابو رکھیں گے اور دہشت گردوں کو گرفتار اور ان کے ٹھکانوں کو بند کریں گے۔ جنرل باقری کے بقول اگر دہشت گرد حملے جاری رہتے ہیں تو ایران عسکریت پسندوں کی آماجگاہوں کو جہاں کہیں بھی وہ ہوں گی نشانہ بنائے گا۔

پاکستان کی طرف سے تاحال ایرانی جنرل کے اس بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

پاکستان کی جنوب مغرب میں بے آب و گیاہ سرحد ایران سے ملتی ہے اور یہاں اکثر منشیات کے اسمگلروں اور عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت دیکھنے میں آتی رہی ہے۔

گزشتہ ماہ ہی عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں دس ایرانی سرحدی محافظ ہلاک ہو گئے تھے اور تہران کا دعویٰ تھا کہ یہ کارروائی سنی شدت پسند تنظیم 'جیش العدل' کے کارندوں نے پاکستانی حدود سے کی تھی۔ تاہم اسلام آباد کا موقف ہے کہ یہ کارروائی ایرانی حدود میں ہوئی۔

پاک ایران سرحد کے قریب ایرانی اہلکار گشت کر رہے ہیں (فائل فوٹو)
پاک ایران سرحد کے قریب ایرانی اہلکار گشت کر رہے ہیں (فائل فوٹو)

گزشتہ ہفتے ہی ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے ایک وفد کے ہمراہ اسلام آباد میں پاکستانی وزیراعظم نوازشریف سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کی تھیں جس میں ایرانی محافظوں کی ہلاکت کا معاملہ بھی زیر بحث آیا تھا۔

اس موقع پر دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز کے درمیان ہاٹ لائن کی بحالی پر اتفاق کرتے ہوئے پاکستان نے ایران کو اپنی جانب مزید سکیورٹی اہلکار تعینات کرنے کی بھی یقین دہانی کروائی تھی۔

حالیہ مہینوں میں پاکستان کے اپنے دیگر دو پڑوسی ملکوں بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدگی کا شکار ہیں جب کہ گزشتہ ہفتے چمن کے مقام پر پاک افغان سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ و گولہ باری کے تبادلے سے کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں مزید تناؤ دیکھا جا رہا ہے۔

اس صورتحال میں ایران کے عسکری عہدیدار کے بیان کو پاکستان میں مبصرین غیرذمہ دارانہ قرار دیتے ہیں۔

دفاعی امور کی تجزیہ کار ماریہ سلطان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی طرف انگشت نمائی کرنے والے ممالک کو اپنے اندرونی معاملات پر نظر رکھنی چاہیے۔

"اس وقت جن سُنی مسائل کا ایران کی حکومت کو سامنا ہے کہ ان کا مرکز ایران کے اندر ہی موجود ہے اس سے پہلے بھی ایران نے ایسے بیانات دیے تھے بعد میں واقعات اور تاریخ کی بنیاد پر یہ بات واضح ہوئی کہ ان (عسکریت پسندوں) کے مراکز ایران کے اندر موجود تھے۔۔۔ان مسائل کی جڑ ان ممالک کو اپنے اندر دیکھنی چاہیے نہ کہ پاکستان کے اندر۔"

ایرانی وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیر داخلہ سے ملاقات کی تھی
ایرانی وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیر داخلہ سے ملاقات کی تھی

بین الاقوامی امور کے سینیئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ ایرانی وزیرخارجہ کی پاکستانی عہدیداروں سے ملاقاتوں اور سرحدی معاملات کو طے کرنے کے لیے طریقہ کار کی موجودگی میں جنرل باقری کا بیان غیر ضروری ہی سمجھا جائے گا۔

"ایران کا مسئلہ یہ ہے ان کا انقلابی جوش ابھی تک ختم نہیں ہوا اس کی وجہ سے وہ اس قسم کی بات پر بیان بازی زیادہ کرتے ہیں۔۔۔میرا خیال ہے کہ وہ معمول کے مطابق نہیں بلکہ انقلابی انداز میں سفارتکاری کرتے ہیں جس سے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان سرحد پر اول تو کسی ناخوشگوار صورتحال کی توقع نہیں اور اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو پروفیسر رضوی کے بقول دونوں ممالک کے تعلقات کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے معاملات کا افغانستان سے کشیدگی جیسا رخ اختیار کرنے کا امکان نہیں ہوگا۔

XS
SM
MD
LG