رسائی کے لنکس

ایران کے سپریم لیڈر کی عرب اسرائیل تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں پر تنقید


 ایران کے سپریم لیڈر کے دفتر کی فراہم کردہ ہینڈ آؤٹ تصویر جس میں وہ 24 اپریل 2024 کو ورکرزسے خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹواے ایف پی
ایران کے سپریم لیڈر کے دفتر کی فراہم کردہ ہینڈ آؤٹ تصویر جس میں وہ 24 اپریل 2024 کو ورکرزسے خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹواے ایف پی
  • اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں سے مشرق وسطیٰ کا بحران حل نہیں ہو گا: خامنہ ای
  • امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے بدھ کو کہا تھا کہ واشنگٹن سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی صورت میں ایک سیکیورٹی پیکج کی پیشکش کے لیے تقریباً تیار ہے۔
  • سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے امکان پر بات چیت کر رہا تھا لیکن غزہ جنگ چھڑنے کے بعد اسے روک دیا گیا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بدھ کو کہا کہ اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں سے مشرق وسطیٰ کا بحران حل نہیں ہو گا۔

خامنہ ای نے کہا، “کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پڑوسی ملکوں کو (اسرائیل کے ساتھ) اپنے تعلقات معمول پر لانے پر مجبور کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا”۔ تاہم بقول ان کے، ”وہ غلطی پر ہیں۔”

خامنہ ای کا یہ تبصرہ پیر کو امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لے آتا ہے تو واشنگٹن اسے ایک سیکیورٹی پیکج کی پیشکش کے لیے تقریباً تیار ہے۔

سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے امکان پر اس کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا لیکن غزہ کی جنگ چھڑنے کے بعد وہ جاری نہیں رہ سکی۔

خامنہ ای نےکہا کہ فلسطینیوں کو ان کی زمین واپس کی جانی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ “انہیں (فلسطینیوں کو) اپنی حکومت، اپنا سسٹم خود بنانا چاہیے، پھر اس سسٹم کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ صیہونیوں سے کیسے نمٹا جائے۔”

امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے مشرق وسطی کے اپنے چار روزہ دورے میں سعودی عرب میں قیام کے دوران کہا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کے بہت قریب ہیں تاہم یہ معاہدہ اسی وقت ہو گا جب ریاض اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائے گا۔

پیر کو ریاض میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلنکن نے کہا کہ ’’سعودی عرب اور امریکہ جن معاہدوں پر کام کر رہے تھے، میرے خیال میں ہم اس کام کو مکمل کرنے کے بہت قریب ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بہت کام کیا تھا۔

اس موقع پر بلنکن نے انکشاف کیا کہ فلسطینیوں سے متعلق مجوزہ معاہدے کے انتہائی اہم حصے پر بات کرنے کے لیے انہیں گزشتہ برس 10 اکتوبر کو سعودی عرب اور اسرائیل کا دورہ کرنا تھا۔ تاہم سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔

بلنکن نے کہا کہ تعلقات معمول پر لانے کے لیے غزہ میں امن اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے قابلِِ اعتماد راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔

گزشتہ برس غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد وہ ساتویں بار خطے کا دورہ کر رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن ریاض میں مصر، اردن ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور فلسطینی اتھارٹی کے نمائندوں کے سات ایک میٹنگ میں ، فوٹو اے ایف پی، 29 اپریل 2024
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن ریاض میں مصر، اردن ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور فلسطینی اتھارٹی کے نمائندوں کے سات ایک میٹنگ میں ، فوٹو اے ایف پی، 29 اپریل 2024

غزہ جنگ 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی جس میں اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر اے ایف پی کی گنتی کے مطابق 1,170 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

اسرائیل کی جوابی کارروائی میں حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں کم از کم 34,568 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔

اسرائیل ۔حماس جنگ کے آغاز کے بعد سے علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے اور شام، لبنان، عراق اور یمن میں ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ فعال ہو گئے ہیں۔

ایران حماس کی حمایت کرتا ہے، لیکن اس نے اپنے دیرینہ دشمن اسرائیل پر حماس کے حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔

ایران اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے فلسطینی نصب العین کی حمایت اس کی خارجہ پالیسی کا مرکز رہی ہے۔

اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG