رسائی کے لنکس

ایران کا کردستان میں موساد کا مرکز تباہ کرنے کا دعویٰ، امیر ترین تاجر بھی ہلاک


کردستان میں اربیل میں ایران کے میزائل امیر کرد تاجر کا گھر تباہ اور ان کی موت ہوئی ہے۔
کردستان میں اربیل میں ایران کے میزائل امیر کرد تاجر کا گھر تباہ اور ان کی موت ہوئی ہے۔

ایران کی مسلح افواج ’پاسدارانِ انقلاب‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے عراق کے نیم خود مختار علاقے کردستان میں اسرائیل کے جاسوسی کے اڈے کو تباہ کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق پاسدارانِ انقلاب نے اس حوالے سے باقاعدہ بیان بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صیہونی حکومت کے حالیہ مظالم کے جواب میں عراق کے علاقے کردستان میں موساد کے لیے جاسوسی کرنے والے ایک اڈے کو بیلسٹک میزائل کے حملے میں تباہ کیا ہے۔

اسرائیل کی حکومت نے کردستان میں ایرانی حملے کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا جب کہ 'رائٹرز' کے مطابق پاسدارانِ انقلاب کے دعوے کی آزاد ذرائع سے بھی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

پاسدارانِ انقلاب نے عراق میں کردستان کے مرکز اربیل میں امریکہ کے قونصل خانے کے قریب رہائشی علاقے پر بھی میزائل داغے ہیں جب کہ شام میں بھی کارروائی کی۔ دونوں کارروائیوں سے متعلق پاسدارانِ انقلاب نے بیان میں کہا کہ شام میں بیلیسٹک میزائلوں سے اُن دہشت گردوں کی تنصیبات تباہ کی گئیں جو ایران میں دہشت گردی میں ملوث ہیں، جن میں داعش بھی شامل ہے۔

دوسری جانب امریکہ نے اربیل میں ایران کے میزائل حملوں کی مذمت کی ہے۔ حکام نے اس حملے کو لاپرواہ ہو کر کی گئی کارروائی بھی قرار دیا ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں امریکہ کی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور نہ ہی ان میں کوئی ہلاکت ہوئی ہے۔

وائٹ ہاؤس میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کی ترجمان ایڈریئن واٹسن کا کہنا ہے کہ امریکہ نے میزائلوں کے راستے پر نظر رکھی ہوئی تھی جن سے شمالی عراق اور شمالی شام میں تباہی ہوئی ہے۔

ان میزائل حملوں کے بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ میزائل حملوں میں کسی امریکی اہلکار یا تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔

ایران نے میزائل حملوں میں امریکی قونصل خانے کے قریب تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔
ایران نے میزائل حملوں میں امریکی قونصل خانے کے قریب تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں ایران کے شہر کرمان میں پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی برسی پر دو دھماکے ہوئے تھے جن میں لگ بھگ سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔

ایران شام میں حالیہ کارروائی سے قبل داعش کے خلاف پہلے بھی اقدامات کرتا رہا ہے۔

واضح رہے کہ غزہ میں جاری اسرائیل کی جنگ میں ایران حماس کا حامی ہے۔ تہران غزہ میں فلسطینیوں کی اموات کی وجہ امریکہ کی اسرائیل کو حاصل حمایت کو قرار دیتا ہے اور وہاں کے لوگوں کی مشکلات کا ذمہ دار امریکہ کو سمجھتا ہے۔

امریکہ کا مؤقف ہے کہ وہ اسرائیل کی کارروائی کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عام فلسطینیوں کی اموات پر اس کے سامنے خدشات کا بھی اظہار کرتا رہا ہے۔

ایران کے اربیل پر بیلسٹک میزائل کے حملے کے بعد عراقی کردستان خطے کے وزیرِ اعظم مسرور بارزانی نے اسے کرد عوام کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔

کردستان میں کردوں کی قائم حکومت کی سیکیورٹی کونسل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اربیل میں کیے گئے حملے میں چار عام شہری ہلاک اور چھ زخمی ہوئے ہیں۔

’رائٹرز‘ کے مطابق عراق کے سیکیورٹی ذرائع سے سامنے آنے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کردستان میں کیے گئے میزائل حملے میں امیر ترین کرد تاجر پیشرو مجید آقا دیزائی اور ان کے خاندان کے بعض افراد کی موت ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ پیشرو مجید آقا دیزائی کردستان پر حکمرانی کرنے والے قبیلے بارزانی سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ ان کے کردستان میں ریئل اسٹیٹ کے کئی بڑے پروجیکٹس ہیں جب کہ وہ سیکیورٹی کمپنی اور پیٹرولیم مصنوعات کی تجارت سے بھی وابستہ تھے۔

سیکیورٹی ذرائع سے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق ایران کے میزائلوں میں سے ایک کردستان کے خفیہ ادارے کے اعلیٰ افسر کے گھر پر بھی گرا ہے جب کہ کرد انٹیلی جینس سینٹر اور اربیل میں ہوائی اڈے کے ایئر ٹریفک کنٹرول کرنے والی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے جس سے فضائی ٹریفک معطل ہوگئی ہے۔

ایران ماضی میں عراق کے شمالی علاقوں میں کارروائی کرتا رہا ہے۔ اس کا الزام ہے کہ اس خطے میں ایران کے علیحدگی پسند گروہ اور اسرائیل کے ایجنٹ متحرک ہیں۔

عراق نے ایران کے علیحدگی پسند گروہوں کے خدشات کے سبب گزشتہ برس اس خطے میں مزید اہلکار تعینات کیے تھے جب کہ اس نے تہران سے اس حوالے سے سیکیورٹی کا معاہدہ بھی کیا تھا۔

ایران کے اس حملے کے بعد غزہ میں جاری جنگ کے خطے میں پھیلنے کے خدشات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ جنگ حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کو کیے گئے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔

اسرائیلی حکام نے حماس کے حملے میں 1200 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی جن میں 300 سے زائد فوجی اہلکار شامل تھے۔ اس حملے کے بعد اسرائیل نے حماس کے خاتمے کے لیے اس دن غزہ کا محاصرہ کرکے جنگ شروع کر دی تھی۔

اس جنگ کے 100 دن میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق 24 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی موت ہوئی ہے جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

حالیہ عرصے میں لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ، یمن کے دارالحکومت میں کئی برس سے قابض حوثی باغی اور عراق و شام میں ایران کی حامی عسکری تنظیموں کی اسرائیل کے خلاف اقدامات اور جھڑپیں سامنے آئی ہیں۔

کرد عراق، شام، ایران اور ترکیہ سمیت خطے کے بعض ممالک میں شام رقبے کو اپنی حکومت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
کرد عراق، شام، ایران اور ترکیہ سمیت خطے کے بعض ممالک میں شام رقبے کو اپنی حکومت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

گزشتہ ماہ شام میں ایک حملے میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے عہدیداران کی اموات ہوئی تھی جن میں شام کی فوج کے لیے اعلیٰ مشیر بھی شامل تھے۔

اسی طرح اسرائیل کی فوج سے جھڑپوں میں لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے بھی 130 جنگجو مارے جا چکے ہیں۔

عراق میں کیے گئے میزائل حملے کے بعد ایران کی پاسدارانِ انقلاب کے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کے حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک وہ اپنے مارے گئے لوگوں کے خون کے آخری قطرے تک کا بدلہ نہ لے لیں۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG