رسائی کے لنکس

عراق سے امریکی لڑاکا فوج کی واپسی جاری


عراق سے امریکی لڑاکا فوج کی واپسی جاری
عراق سے امریکی لڑاکا فوج کی واپسی جاری

عراق میں سیاستدان اب تک حکومت نہیں بنا سکے ہیں اور امریکی فوجوں کی واپسی کی دو تاریخیں بالکل قریب آ گئی ہیں۔ امریکی اور عراقی عہدے دار مستقبل کے دو طرفہ دفاعی تعلقات کے بارے میں تبادلۂ خیال کر رہے ہیں۔

عراق سے ہر ہفتے ہزاروں امریکی لڑاکا فوجی واپس جا رہے ہیں۔ اس مہینے کے آخر تک عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد 50,000 رہ جائے گی۔ اگرچہ اس ڈیڈ لائن میں ابھی تین ہفتے باقی ہیں، پھر بھی پینٹاگون کے ٹیلیویژن چینل نے گذشتہ سنیچر کو امریکہ کے جنگی مشن کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔

’’دوسری انفینٹر ی ڈویژن کے چوتھے بریگیڈ نے ہفتے کے روز باقاعدہ طور پر سکیورٹی کی ذمہ داریاں عراق کی چھٹی آرمی ڈویژن کو منتقل کر دیں۔ عراقی فوج کو جنگی کارروائیوں کا کنٹرول منتقل کرنے والی یہ امریکہ کی آخری لڑاکا ٹیم تھی۔‘‘

اس کے ساتھ ہی عراق میں امریکی فوج کی توجہ مکمل طور پر عراقی فورسز کو مشورے دینے اور ان کی مدد کرنے پر مرکوز ہو گئی ہے ۔پہلی ستمبر کو ان کے مشن کا نام بھی آپریشن عراقی فریڈم سے تبدیل کر کے آپریشن نیو ڈان ہو جائے گا۔ اور امریکہ اور عراق کے درمیان 2008 میں جس سمجھوتے پر دستخط ہوئے تھے، اس کے مطابق، اگلے سال مزید فوجیں واپس جائیں گی۔ اس طرح 31 دسمبر، 2011 تک عراق سے تمام امریکی فوجیں واپس جا چکی ہوں گی۔

لیکن اس سمجھوتے پر دستخط ہونے کے بعد سے ہی، ماہرین اور امریکی اور عراقی عہدے دار یہ توقع کرتے رہے ہیں کہ اس پر پوری طرح عمل در آمد ہونے سے پہلے اس میں ترمیم کی جائے گی۔

بدھ کے روز عراق کے ایک سینئر ملٹری افسر، لیفٹیننٹ جنرل باباقر زباری نے کہا کہ عراق کو اگلے دس برسوں تک امریکی فوجیوں کی ضرورت پڑے گی۔

باباقر زباری
باباقر زباری

بروکنگز انسٹیٹیوشن کے Michael O’Hanlon کہتے ہیں کہ اس بیان پر حیرت نہیں ہونی چاہیئے ۔’’در اصل یہ عراقی جنرل اپنی طرف سے ملک کے سیاستدانوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور موجودہ تاثر کو دور کر رہے ہیں کہ امریکہ اگلے سال کے آخر تک رخصت ہو سکتا ہے اور اسے چلا جانا چاہیئے۔‘‘

O’Hanlon کہتے ہیں کہ یہ جنرل بہت سے عراقی اور امریکی فوجی افسروں کے خیالات کی عکاسی کر رہے ہیں جن کا خیال ہے کہ عراق کو اگلے سال کےبعد بہت دنوں تک امریکی فضائی طاقت، تربیت دینے والے عملے، اسپیشل فورسز اور دوسری مدد کی ضرورت ہو گی۔ اس کے علاوہ ایک اور وسیع تر وجہ بھی ہے ۔ وہ کہتےہیں’’آخر آپ امریکی عوام کے اتنے اچھے دوست کو کھونے کا خطرہ کیوں مول لینا چاہتے ہیں۔ امریکی فوج کی شکل میں، استحکام دینے والی اور غیر جانبدار طاقت موجود ہے، جب کہ آپ کو اب تک یقین نہیں ہے کہ عراق کے زخم پوری طرح بھرے ہیں یا نہیں، اور وہاں واقعی استحکام آ سکتا ہے یا نہیں۔‘‘

جو زخم اب بھی ہرے ہیں ان میں عراقی شیعوں اور سنیوں کے درمیان جھگڑے، عرب اور کرُد آبادیوں کے درمیان تنازعات شامل ہیں۔پھر یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ ملک میں غیر مساوی اقتصادی ترقی، کمزور نظامِ حکومت اور مشکلات میں گرفتار نظامِ انصاف کی وجہ سے عسکریت پسند واپس آ سکتے ہیں۔عراق کو اپنی فورسز کو جدید بنانے کے لیے بھی بیرونی مدد درکار ہو گی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس قسم کی مدد کا بہترین ذریعہ امریکہ ہے ۔

لیکن 2011 کے بعد عراق میں امریکی فوجوں کی موجودگی، دونوں ملکوں کے لیے سیاسی طور پر حساس معاملہ ہے ۔امریکی عہدے دار کہتے ہیں کہ وہ مکمل واپسی کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں، لیکن اگر عراقی حکومت چاہے تو وہ پلان میں تبدیلی بھی کر سکتے ہیں۔ بدھ کے روز امریکہ میں اپنے جہاز میں سفر کے دوران امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس نے رپورٹروں سےکہا’’میں سمجھتا ہوں کہ دونوں حکومتوں نے اس سمجھوتے پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ ہم عراق سے 2011 کے آخر میں نکل آئیں گے۔ اگر وہاں کوئی نئی حکومت بنتی ہے، اور اگر وہ 2011 کے بعد کے سلسلے میں بات کرنا چاہتے ہیں، تو ہم بات چیت کے لیے تیار ہوں گے۔ لیکن یہ تجویز عراقیوں کی طرف سے آنی چاہیئے ۔‘‘

امریکی عہدے دار عراقی سیاستدانوں پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ اپنے اختلافات ختم کردیں اور بہت سے اہم معاملات سے نمٹنے کے لیے نئی حکومت بنائیں۔ مارچ کے انتخابات کے بعد، جس میں دو بڑے سیاسی بلاکس کو تقریباً برابر کی طاقت مل گئی ہے، عراقی عہدے داروں کے درمیان چپقلش جاری ہے ۔ماہرین کہتے ہیں کہ فوجوں کا معاملہ اس وقت تک طے نہیں ہو گا جب تک عراق میں حکومت نہیں بنتی اور جب تک دونوں ملکوں کے عہدے داروں کو عراقی فورسز کی کارکردگی کو ان کے نئے رول میں جانچنے کا موقع نہیں ملتا۔

XS
SM
MD
LG