رسائی کے لنکس

اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک اور جنگ بندی معاہدے میں پیش رفت


بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی غزہ کی جنگ اور رفح پر حملے کے منصوبے کے خلاف تل ابیب میں احتجاج کر رہے ہیں۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی غزہ کی جنگ اور رفح پر حملے کے منصوبے کے خلاف تل ابیب میں احتجاج کر رہے ہیں۔

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس ایک اور جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے سمجھوتے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ تاہم مذاکرات بھی جاری ہیں اور اسرائیل نے اپنی فوجی کارروائی غزہ کے جنوبی سرے تک وسیع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے جہاں کوئی 14 لاکھ فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔

یہ بات چیت مصر میں اس کے ایک دن بعد جاری رہی جب اسرائیلی فوجوں نے رفح سے دو یرغمالوں کو بازیاب کرایا،جو کہ مصر کی سرحد کے ساتھ واقع جنوبی قصبہ ہے۔

اس حملے میں جس میں انہیں رہا کرایا گیا، صحت سے متعلق مقامی عہدیداروں کے مطابق کم ازکم 74 فلسطینی مار دیے گئے اور زبردست نقصان ہوا۔ یہ حملہ اس کی ایک جھلک پیش کرتا ہے کہ اگر بھرپور زمینی حملہ کیا گیا تو کیا منظر ہو گا۔

لیکن اگر جنگ بندی کا معاہدہ ہو جاتا ہے تو پھر اس سے غزہ میں لوگوں کو جنگ سے، جو اب پانچویں ماہ میں داخل ہو چکی ہے، مہلت مل جائے گی جس کی شدید ضرورت ہے۔ اور اس معاہدے سے تقریباً ایک سو لوگوں کو بھی رہائی مل جائے گی جن کو اب تک غزہ میں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔

قطر، امریکہ اور مصر نے یہ معاہدہ کرانے کے لیے ان مختلف موقفوں کے پیش نظر کوششیں کی ہیں جن کا حماس اور اسرائیل دونوں نے برسر عام اظہار کیا ہے۔

اسرائیل نے حماس کی حکومتی اور فوجی صلاحیتوں کو تباہ کرنا اور یرغمالوں کو رہا کرانا اپنی جنگ کے بنیادی مقاصد متعین کیے ہیں جو سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی۔ جس میں 1200 لوگ مارے گئے جن میں زیادہ تر شہری تھے جب کہ کوئی 250 لوگوں کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔

اس جنگ نے غزہ میں جو تباہی مچائی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ صحت کے مقامی عہدیداروں کے مطابق 28 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے جن میں 70 فیصد سے زیادہ عورتیں اور بچے شامل تھے۔

امریکی سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز اور اسرائیلی سراغ رساں ادارے موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا نے قاہرہ کی بات چیت میں شرکت کی۔ ان دونوں نے پچھلی جنگ بندی کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

مصری دار الحکومت میں ایک مغربی سفارت کار نے کہا کہ چھ ہفتے کے وقفے کی تجویز میز پر ہے۔ لیکن ساتھ ہی خبردار کیا کہ معاہدے تک پہنچنے کے لیے مزید کام کرنا باقی ہے۔

تاہم صدر بائیڈن نے پیر کے روز اشارہ دیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ معاہدہ اب دسترس میں ہو۔

بائیڈن نے دورے پر آئے ہوئے اردن کے بادشاہ عبداللہ دوئم کے ہمراہ کھڑے ہو کر کہا کہ معاہدے کے کلیدی اجزاء پیش ہو چکے ہیں۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اختلافات بہرحال ابھی باقی ہیں۔ اور یہ کہ امریکہ یہ معاہدہ کرانے کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہے، وہ کرے گا۔

اس رپورٹ کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG