جاپان کی تاریخ میں طویل مدت تک وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے شینزو ایبے نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
جاپان کے میڈیا کے مطابق شینزو ایبے نے خرابیٔ صحت کی بنا پر وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔
دارالحکومت ٹوکیو میں جمعے کو پریس کانفرنس کے دوران شنزو ایبے نے کہا کہ ان کی حکومت کی مدت مکمل ہونے میں ابھی ایک سال باقی ہے اور ملک کو درپیش بہت سے چیلنجز ہیں جن کا سامنا کرنا باقی ہے۔ تاہم انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
شنزو ایبے 2006 میں جاپان کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت ان کی عمر 52 برس تھی۔ اس سے قبل ان کے چچا ایساکو ساتو 1964 سے 1972 تک ملک کے وزیرِ اعظم رہے تھے۔
شینزو ایبے کی حکومت کی پہلی مدت مکمل ہونے کے بعد وہ دسمبر 2012 میں ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آئے اور قومی ایجنڈے میں ملکی معیشت کو ترجیح دی۔
شنزوے ایبے نے چھ مرتبہ قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور ملکی دفاعی صلاحیت، امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی اتحاد اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔
تاہم کرونا وائرس کی وبا کے دوران اس سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر شنزو ایبے تنقید کی زد میں تھے اور ان کی مقبولیت کے گراف میں بھی کمی واقع ہوئی تھی۔
شنزو ایبے آنتوں کے ورم کے مرض میں مبتلا تھے اور وہ پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ یہ مرض اُنہیں بچپن سے لاحق ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ علاج کے بعد ان کی حالت بہتر ہو گئی ہے۔
شینزو ایبے کو پیر کے روز دوبارہ اسپتال میں داخل کیا گیا تھا جس کے بعد ان قیاس آرائیوں نے جنم لینا شروع کر دیا تھا کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر اب مزید نہیں رہیں گے۔
شینزو ایبے کی طبیعت میں اچانک خرابی کے بعد ان کی کابینہ میں شامل حکام اور حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے کہا تھا کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہے اور انہیں آرام کی ضرورت ہے۔
شنزو ایبے کے استعفے کے بعد جاپان کے کئی سیاست دان وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے خواہش مند ہیں۔
مقامی میڈیا سروے کے مطابق شنزو ایبے کے حریف اور سابق وزیرِ دفاع شیگرو اشیبا مضبوط ترین امیدوار ہیں، لیکن حکمراں جماعت میں ان کی مقبولیت کم ہے۔
جاپان کے ذارئع ابلاغ میں وزیرِ دفاع تارو کونو، کابینہ کے چیف سیکرٹری یوشی ہائیڈ سوگا اور معاشی بحالی کے وزیر یشوروشی نشی مورا کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔