رسائی کے لنکس

ٹی وی اینکر کے خلاف سماجی میڈیا پر جاری مہم کی مذمت


سلیم صافی (فائل فوٹو)
سلیم صافی (فائل فوٹو)

​​سینئر صحافی اور تجزیہ کار وجاہت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی قیادت اور کارکنوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اخبارات، صحافت اور ٹیلی ویژن ان کا حریف نہیں ہے۔

پاکستان میں کئی ممتاز صحافیوں اور سماجی میڈیا پر سرگرم کارکنوں نے معروف ٹی وی اینکر سلیم صافی کے خلاف سماجی میڈیا پر جاری مہم کی مذمت کی ہے۔

سلیم صافی نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم نوازشریف نے اپنے دورِ حکومت میں وزیرِ اعظم ہاؤس کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے تھے جس کے بعد سے بعض حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے نو منتخب وزیرِ اعظم عمران خان نے قوم سے اپنی پہلی نشری تقریر میں وزیرِ اعظم ہاؤس کے اخراجات اور وہاں دستیاب سہولتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہ صرف بطور وزیرِ اعظم اپنے اخراجات کم کریں گے بلکہ ان کی حکومت بھی سادگی کو بطور پالیسی اپنائے گی۔

عمران خان کی اس تقریر کے ردِ عمل میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ بطور وزیرِ اعظم وہ وزیرِ اعظم ہاؤس کے اخرجات اپنی جیب سے ادا کرتے رہے ہیں۔

بعد ازاں ایک نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' سے منسلک صحافی سلیم صافی نے نواز شریف کی طرف سے ادا کیے جانے والے اخرجات کی رسیدوں اور چیک کی تفصیلات اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کر دی تھیں جس کے بعد سے انہیں حکمران جماعت تحریکِ انصاف کے مبینہ حامیوں اور بعض دیگر حلقوں کی طرف سے نامناسب زبان کا استعمال کرتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے ممتاز صحافیوں نے سلیم صافی سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے اور سماجی میڈیا پر ان کے خلاف سرگرم کارکنوں پر زور دیا ہے کہ وہ "رائے کے اختلاف" کا احترام کریں۔

ایک نجی ٹی وی چینل کی اینکر اور معروف صحافی عاصمہ شیرازی نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ سلیم صافی ایک اچھے اور دلیر صحافی ہیں اور ان کے خلاف کسی طرح کے نامناسب الفاظ کا استعمال کسی طور درست نہیں ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار وجاہت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی قیادت اور کارکنوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اخبارات، صحافت اور ٹیلی ویژن ان کا حریف نہیں ہے۔

ان کے بقول خبر سے متعلق واقعہ یا حقیقت اہم ہے اور اس پر توجہ دینے کے بجائے خبر سامنے لانے والے کو دھمکایا اور تنگ کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے اگر آج سلیم صافی کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے تو کل کسی اور کو بھی اسی طرح کے ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سلیم صافی پر ہونے والی تنقید پر پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنقید ایک حد میں ہونی چاہیے اور اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔

"جب اخلاق کے دائرے میں رہ کر بات کی جائے تو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ نوجوانوں میں جذبات کا ہونا فطری بات ہے اور بعض اوقات وہ لوگ جو انہیں اسٹیٹس کو سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کے خلاف وہ غصے کا اظہار زیادہ کرتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ کم ہوتا جائے گا۔"

پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے سربراہ اور ابلاغِ عامہ کے استاد ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ سماجی میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل چاہے وہ صحافیوں کی خلاف ہو یا کسی اور کے، معاشرے میں بڑھتی ہوئے عدم برداشت کا مظہر ہے۔

ڈاکٹر مہدی حسن کے بقول بعض لوگوں کو دوسرے لوگوں کے جمہوری حقوق کا مناسب اداراک نہیں اور وہ آزادیٔ اظہار کے حق کی اہمیت نہیں سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو اس طرزِ عمل کے خلاف آواز بلند کرنی ہو گی اور سیاسی جماعتوں کو اپنے حامیوں کو یہ بتانا ہو گا کہ وہ سماجی میڈیا پر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کریں۔

XS
SM
MD
LG