رسائی کے لنکس

مائیک ہٹاؤ تحریک


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں ان دنوں میڈیا عجیب صورت حال سے دوچار ہے جہاں ہر سرکاری یا غیر سرکاری نیوز کانفرنس کے دوران چار نجی چینلز کے مائیک لائیو نشریات کے دوران پریس کانفرنس کرنے والے کے سامنے سے اٹھا دئیے جاتے ہیں۔

یہ کام کوئی اور نہیں بلکہ صحافی ہی اپنے بیروزگار صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کر رہے ہیں۔ فی الحال یہ صورت حال اسلام آباد میں ہے لیکن لگتا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں ملک بھر میں یہی کچھ ہونے لگے گا۔

ان واقعات کا آغاز اب سے چار روز قبل اس وقت ہوا جب نجی ٹی وی ’سما‘ کے متعلق یہ خبر آئی کہ اس نے ملک بھر میں اپنے ڈیڑھ سو سے زائد صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو جبری طور پر ملازمتوں سے برطرف کر دیا ہے۔ ان میں سے 17 افراد صرف اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے شاہد خاقان عباسی کی نیوز کانفرنس جاری تھی کہ اچانک نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل قرار اور جنرل سیکرٹری انور رضا اسٹیج کے قریب آئے اور لائیو پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ میڈیا مالکان ہمارے صحافی ساتھیوں کو ملازمتوں سے نکال کر ان کے چولہے بجھا رہے ہیں، لہذا جب تک ان افراد کو ملازمتوں پر بحال نہیں کیا جاتا بطور احتجاج ہم کسی نیوز کانفرنس میں ان ٹی وی چینلز کو کوریج نہیں کرنے دیں گے۔

اس کے ساتھ ہی سما ٹی وی، ایکسپریس نیوز اور بول نیوز کے مائیک اٹھا کر الگ کر دئیے گئے۔ ان کے کیمرہ مینوں کو جانے کو تو نہیں البتہ کیمرے بند کرنے کا ضرور کہا گیا۔

اس نیوزکانفرنس میں جیو نیوز کا مائیک بچ گیا لیکن بعد میں اس فہرست میں جیو نیوز کو بھی شامل کر لیا گیا جہاں دو سے تین ماہ کی تنخواہیں واجب الادا ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سینکڑوں افراد کو ملازمتوں سے نکالا جا چکا ہے ۔

اس کے بعد سے یہ معاملہ اب معمول بنتا جارہا ہے اور لگ بھگ ایک درجن سے زائد مختلف سرکاری کوریجز کے دوران ان چاروں نیوز چینلز کے مائیک اٹھا کر انہیں کوریج سے روک دیا گیا۔ اب ان چینلز کی ڈی ایس این جیز کو بھی بند کروایا جا رہا ہے اور انہیں کسی قسم کی کوریج نہیں کرنے دی جاتی۔

صحافیوں کا یہ احتجاج اپنی جگہ لیکن نجی چینلز مالکان شاید اس بے عزتی کو خوش دلی سے قبول کر رہے ہیں اور فوراً سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن کو کٹ کر کے اپنی معمول کی نشریات چلا رہے ہیں یا پھر کسی دوسرے چینل کی فریکونسی چوری کر کے ’کنڈا ‘ڈال لیا جاتا ہے، ماسوائے اے آر وائی نیوز کسی اور چینل نے ان صحافیوں کے مائیک اٹھائے جانے کے معاملہ پر اب تک ٹکر چلانے کی زحمت تک نہیں کی۔

صحافی بھی اس ردعمل پر مایوس نہیں ہو رہے اور مسلسل مائیک اٹھا کر ان چینلز کو برطرفیوں سے متعلق انہیں باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، حتیٰ کہ دفترخارجہ کی بریفنگ کے دوران بھی یہ مائیک اٹھائے گئے جس پر ترجمان دفترخارجہ نے صحافیوں سے اظہار یک جہتی کیا اور کہا کہ وہ اس معاملے پر وزیر اطلاعات و نشریات سے بات کریں گے۔

یہاں تک کہ وزیر اطلاعات و نشریات کی نیوز کانفرنس میں بھی مائیک اٹھا دئیے گئے جس پر انہوں نے کہا کہ صحافیوں کا استحصال روکنے کے لیے وہ پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی لے کر آ رہے ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں مالکان کو ادارے بند کرنے یا ورکرز کی تعداد کم کرنے سے کیسے روکا جائے، اس بارے میں وزیر اطلاعات نے کوئی بات نہیں کی اور اپنی اتھارٹی کے متعلق اظہار کے بعد معمول کی بریفنگ شروع کر دی۔

نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل قرار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ان سینکڑوں ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہیں جنہیں مصنوعی بحران کا بہانہ بنا کر بیروزگار اور ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا مالکان کی طرف سے مشکلات کا کہا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اب حکومت نے نیوز پرنٹ ڈیوٹی بھی کم کر دی ہے۔ ماضی کے بقایاجات بھی زیادہ تر ادا کر دئیے گئے ہیں، جبکہ بیشتر نجی چینلز پہلے ہی پرائیویٹ بزنس پر انحصار کر رہے تھے۔ ایسے میں حکومتی اشتہارات کا بہانہ بنانا سراسر جھوٹ ہے۔

انہوں نے اعلیٰ عدلیہ سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اپنے دئیے گئے احکامات پر عمل درآمد کروائے اور وہ ادارے جہاں ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی جا رہیں انہیں فوری ادا کروایا جائے، جبکہ سینکڑوں ملازمین کو برطرف کرنے پر ان اداروں کے مالکان کو سپریم کورٹ طلب کر کے ان سے وضاحت مانگی جائے۔

گزشتہ چند دنوں میں جن اداروں میں سے کارکنوں کو ملازمتوں سے نکالا گیا تھا، ان میں سما ٹی وی کے ڈیڑھ سو ملازمین کے علاوہ باقی کارکنوں سے زبردستی استعفوں پر دستخط کرانے کے بعد تین ماہ سے ایک سال تک کے کنٹریکٹ دے دیے گئے ہیں۔

ایکسپریس ٹی وی کا اسلام آباد اسٹیشن مکمل بند کر کے ڈیسک کے تمام ملازمین فارغ ک ردئیے گئے ہیں جبکہ زیادہ تر رپورٹرر کو بھی نکال دیا گیا ہے اور اب ایکسپریس ٹی وی کے رپورٹرز سے اخبار اور ٹی وی دونوں کے لیے رپورٹنگ کا کہا جا رہا ہے۔

دنیا نیوز میں سے کارکن تو نہیں نکالے گئے البتہ تنخواہوں اور فیول میں 10 سے 20 فیصد تک کٹوتی کر دی گئی ہے۔ جیونیوز میں بھی 10 سے 20 فیصد تک تنخواہیں کم کر دی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پشاور بیورو کے بیورو چیف سمیت سات لوگوں کو بیک جنبش قلم نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ بول نیوز میں بھی کارکنوں کو کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔

یہ صورت حال کب تک جاری رہے گی اس پر حکومت لب کھول رہی ہے اور ہی مالکان کچھ بتا رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ تریں خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔

ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

اینڈرایڈ فون کے لیے: https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en

آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے: https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675

XS
SM
MD
LG