رسائی کے لنکس

امریکی عدالت نے تارکینِ وطن بچوں اور والدین کو جدا کرنے سے روک دیا


نئی پالیسی کے تحت اپریل کے آخر سے جون کے وسط تک سرحد پار کرنے والے کل 2300 بچوں کو ان کے والدین یا سرپرستوں سے جدا کیا گیا۔ (فائل فوٹو)
نئی پالیسی کے تحت اپریل کے آخر سے جون کے وسط تک سرحد پار کرنے والے کل 2300 بچوں کو ان کے والدین یا سرپرستوں سے جدا کیا گیا۔ (فائل فوٹو)

عدالت نے امریکی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی تحویل میں موجود پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو 14 دن کے اندر اور پانچ سال سے بڑی عمر کے بچوں کو 30 دن کے اندر ان کے والدین کے حوالے کرنے کے انتظامات کرے۔

امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے امیگریشن حکام کو غیر قانونی طریقے سے امریکہ میں داخل ہونے والے والدین اور ان کے بچوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے سے روک دیا ہے۔

امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ڈسٹرکٹ جج ڈانا سیبرو نے منگل کو اپنے فیصلے میں امریکی حکام کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی تحویل میں موجود تمام بچوں کو ایک ماہ کے اندر اندر ان کے تارکِ وطن والدین سے ملانے کا انتظام کریں۔

جج سیبرو نے یہ حکم امریکہ میں شہری حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم 'امیریکن سول لبرٹیز یونین' کی درخواست پر دیا ہے جس نے امریکی سرحد پر تارکِ وطن خاندانوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کی پالیسی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔

یونین نے یہ مقدمہ ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اور ان کی چھ سالہ بچی کی مدعیت میں دائر کیا تھا جو گزشتہ سال نومبر میں کانگو میں جاری تشدد سے بھاگ کر سیاسی پناہ لینے کے لیے امریکہ آئی تھیں لیکن ان دونوں کو امریکی حکام نے ایک دوسرے سے الگ کردیا تھا۔

گو کہ دونوں ماں بیٹی مارچ 2018ء میں ایک دوسرے سے مل گئی تھیں لیکن یونین کا کہنا ہے کہ اس نے یہ مقدمہ ایسے ہزاروں والدین کو ریلیف پہنچانے کے لیے دائر کیا ہے جنہیں امریکی سرحد پر ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔

ملک بھر میں احتجاج کے بعد صدر ٹرمپ نے تارکِ وطن خاندانوں کو جدا کرنے کی اپنی پالیسی واپس لے لی تھی۔
ملک بھر میں احتجاج کے بعد صدر ٹرمپ نے تارکِ وطن خاندانوں کو جدا کرنے کی اپنی پالیسی واپس لے لی تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے رواں سال مئی کے اوائل میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف 'زیرو ٹالرنس پالیسی' کا اعلان کیا تھا۔

اس نئی پالیسی کے تحت بلا اجازت سرحد پار کرنے والے خاندانوں کے بالغ افراد کو جیل بھیجا جارہا تھا جب کہ ان کے ساتھ آنے والے بچوں کو حکومت کی نگرانی میں چلنے والے کیمپوں میں رکھا گیا تھا۔

اس پالیسی کے تحت اپریل کے آخر سے جون کے وسط تک کل 2300 بچوں کو ان کے والدین یا سرپرستوں سے جدا کیا گیا۔

بعد ازاں اندرون و بیرونِ ملک ہونے والے سخت احتجاج کے بعد ٹرمپ حکومت نے 20 جون کو یہ پالیسی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

کیلی فورنیا کی عدالت کے جج نے منگل کو اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ عدالت کے سامنے جو شواہد پیش کیے گئے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ایک ایسے بحران کو حل کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے جو اس نے خود ہی پیدا کیا ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ بادی النظر میں حکومت ایک ایسے بحران کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو اس کا اپنا پیدا کردہ ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ بادی النظر میں حکومت ایک ایسے بحران کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو اس کا اپنا پیدا کردہ ہے۔

عدالت کے فیصلے کے مطابق یہ اقدامات ایک منظم اور محتاط طرزِ حکومت کے اس اصول کے خلاف ہیں جو امریکی آئین میں طے کیا گیا ہے۔

عدالت نے امریکی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی تحویل میں موجود پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو 14 دن کے اندر اور پانچ سال سے بڑی عمر کے بچوں کو 30 دن کے اندر ان کے والدین کے حوالے کرنے کے انتظامات کرے۔

گو کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ایک انتظامی حکم نامے کے ذریعے والدین یا سرپرستوں کے ساتھ سرحد پار کرنے والے بچوں کو ان سے جدا کرنے کی پالیسی ختم کردی تھی لیکن اس حکم نامے میں اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا تھا کہ سرکاری تحویل میں موجود بچوں اور ان کے زیرِ حراست والدین کو کب اور کس طرح ملایا جائے گا۔

خدشہ ہے کہ عدالت کے حکم کے بعد حکام کی پریشانی میں اضافہ ہوجائے گا جن کے مطابق اب بھی سرکاری کیمپوں میں دو ہزار ایسے بچے موجود ہیں جنہیں ان کے والدین اور سرپرستوں سے ملانے کا انتظام نہیں ہوسکا ہے۔

ٹرمپ حکومت عدالت کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرسکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG