رسائی کے لنکس

دہشت گردوں کی 'واچ لسٹ' آئینی حقوق کے خلاف ہے: امریکی عدالت


کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن نے اپنے ایک بیان میں عدالت کے حکم نامے کو اپنی فتح قرار دیا ہے۔ (فائل فوٹو)
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن نے اپنے ایک بیان میں عدالت کے حکم نامے کو اپنی فتح قرار دیا ہے۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کی ایک عدالت نے دہشت گردوں کی واچ لسٹ کو آئینی حقوق کے خلاف قرار دے دیا ہے۔

امریکی ریاست ورجینیا کی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج انتھونی جے ٹرینگا نے بدھ کو 32 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں کہا کہ دہشت گردوں کی واچ لسٹ کے ڈیٹا بیس میں لوگوں کا نام شام کیے جانے کا طریقہ کار انتہائی مبہم ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ مدعی کی آزاد نقل و حرکت اور عزت نفس بنیادی ترجیح ہے جب کہ دہشت گردوں کی واچ لسٹ سے متعلق موجودہ طریقہ کار مناسب نہیں ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ کے تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کے انسداد دہشت گردی اسکریننگ سینٹر کے مطابق 2017 تک تقریباً 12 لاکھ افراد واچ لسٹ میں شامل تھے۔ اگرچہ ان میں زیادہ تر غیرملکی ہیں تاہم دہشت گردوں کی اس لسٹ میں 4600 امریکی بھی شامل ہیں جنہیں قانون تحفظ فراہم کرتا ہے۔

ایسے افراد جن کے نام واچ لسٹ میں شامل کیے جاتے ہیں اُنہیں ملک میں داخلے سمیت سفری پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی ایئر پورٹ پر سخت چیکنگ کے علاوہ اُنہیں سرکاری ملازمت بھی نہیں دی جاتی۔

واچ لسٹ میں کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن (سی اے آئی آر) کے 19 نمائندے بھی شامل ہیں۔ اور انہوں نے اپنے نام اس لسٹ میں شامل ہونے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

اُن کے بقول اُنہیں کوئی نوٹس نہیں ملا کہ اُن کا نام دہشت گردوں کی واچ لسٹ میں شامل کیا جارہا ہے یا اُنہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا گیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں مدعیوں کے وکلا اور محکمہ انصاف کو ہدایت کی کہ وہ اس ضمن میں اس سوال کا جواب جمع کرائیں کہ قومی سلامتی اور پبلک سیفٹی پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر شہریوں کے حقوق کا تحفظ کس طرح یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن نے اپنے ایک بیان میں عدالت کے حکم نامے کو اپنی فتح قرار دیا ہے۔

سی اے آئی آر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نہاد اوواد کا کہنا ہے کہ اُن کی قانونی ٹیم نے آخر کار خفیہ واچ لسٹ کو ختم کرنے میں اہم کامیابی حاصل کی جو اکیسویں صدی کے آغاز پر خالصتاً مسلمانوں کے خلاف بنائی گئی تھی۔

امریکہ کے اٹارنی جنرل کے ترجمان جوشوا اسٹو نے عدالتی فیصلے پر بیان دینے سے گریز کیا ہے۔ تاہم عدالت میں حکومت کے وکلا نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس مقدمے کو ختم ہوجانا چاہیے۔

محکمہ انصاف کے وکلا کا کہنا تھا کہ مدعی مقدمہ عدالت میں چلانے کے مجاز نہیں کیوں کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنا قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔

جج ٹرینگا نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ بیشتر درخواست گزاروں نے اس کیس میں سفری پابندی سے متعلق فہرست 'نو فلائی لسٹ' میں اپنا نام شامل کیے جانے کا شکوہ نہیں کیا۔ البتہ انہوں نے دہشت گردوں کی واچ لسٹ میں نام شامل ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

جج کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی واچ لسٹ میں شامل افراد کے ناموں کا تبادلہ ریاستی اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہوتا ہے اور اس عمل سے اُن افراد کو اہلخانہ کے سامنے ہتھکڑی لگانے اور اُنہیں کئی گھنٹوں تک حراست میں رکھنے جیسے خدشات جنم لیتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG