رسائی کے لنکس

جسٹس فائز عیسیٰ کیس: 'سماعت براہِ راست دکھانے کا اختیار صرف عدالت کے پاس ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیے جانے سے متعلق سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی نظرِثانی درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ کوئی بھی عدالتی سماعت براہِ راست دکھانے کا اختیار وفاقی حکومت نہیں بلکہ عدالت کے پاس ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت براہِ راست دکھانے سے متعلق بھی عدالت میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت ہمیں نہ بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سماعت کے دوران اس کیس کی براہِ راست سماعت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست قابلِ سماعت نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کسی صحافی یا صحافتی تنظیم کی طرف سے براہِ راست کوریج کی کوئی درخواست نہیں دی گئی۔ براہِ راست کوریج کی اجازت دینا پالیسی کا معاملہ ہے۔

عدالت کا 10 رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے جس کی سربراہی جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے ہیں۔

دیگر ججز میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان ،جسٹس یحییٰ آفریدی، اور جسٹس قاضی محمد امین احمد شامل ہیں۔

سماعت کے دوران ایڈینشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کمرہؐ عدالت میں موقف اختیار کیا کہ براہِ راست نشریات میڈیا کا حق ہے کسی فریق کا نہیں۔ اب تک کسی میڈیا ہاؤس نے عدالت میں براہِ راست نشریات کی درخواست نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان میں عمومی اور عدالت میں تیکنیکی بحث ہوتی ہے۔ عدالتی کارروائی میں استعمال ہونے والی زبان عام فہم نہیں ہے۔

عامر رحمان نے جسٹس فائز عیسیٰ کی درخواست ناقابلِ سماعت قرار دی اور کہا کہ نظرِ ثانی درخواستوں میں کارروائی براہِ راست نشر کرنے کی استدعا نہیں کی جاسکتی۔ کیوں کہ نظرِ ثانی کیس میں کوئی نیا مؤقف نہیں اپنایا جا سکتا۔ قانون میں کھلی عدالت میں سماعت کا ذکر ہے میڈیا پر نشر کرنے کا نہیں۔

عامر رحمان نے کہا کہ کیا آزادیٔ اظہار رائے کا مطلب براہِ راست نشریات ہے؟ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔ عامر رحمان نے کہا کہ عدالت نے ہمیشہ میڈیا کی آزادی کی بات کی ہے۔ عدالت نے کبھی براہِ راست کوریج کو میڈیا کا حق قرار نہیں دیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم گلوبل ویلج میں رہ رہے ہیں۔ ہمیں دنیا کے ساتھ چلنا ہو گا۔ سپریم کورٹ اس ملک کے عوام کی عدالت ہے۔ عدالتی کارروائی میں کچھ بھی خفیہ نہیں ہوتا۔

جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے عدالت کو کئی معاملات میں آسانی ہوئی، ویڈیو لنک پر سماعت بھی ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ہوتی ہے۔ گوادر میں بیٹھا شخص عدالتی کارروائی دیکھنا چاہے تو کیسے روک سکتے ہیں؟ وکیل یا جج کوئی بھی بدتمیزی کرے تو عوام کو معلوم ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں وفاقی حکومت نہ بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے، براہ راست نشریات عدالت کا اختیار ہے وفاقی حکومت کا نہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کا انحصار غیر ملکی عدالتوں کے فیصلوں پر ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ عدالتی نہیں سپریم کورٹ کا انتظامی معاملہ ہے۔

'کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے مجھے بدنام کیا جا رہا ہے'

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روسٹرم پر آ کر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت میڈیا کو دبا رہی ہے۔ پہلے حکومت نے میڈیا کو تباہ کر دیا اب یو ٹیوب کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ مجھے کھلے عام بدنام کیا جا رہا ہے جب کہ کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے میرے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ اگر کوریج براہِ راست ہو تو سب دیکھیں گے کہ کیا جھوٹ ہے اور کیا سچ ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں آپ سے پرائیویٹ نہیں مل سکتا، پرائیویٹ مل کر میں آپ کو بتاتا کہ آپ کو بھرپور کوریج مل رہی ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 17 مارچ تک ملتوی کر دی۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف آنے والے ریفرنس کو کالعدم قرار دیے جانےکے فیصلہ پر جسٹس فائز عیسیٰ نے نظرثانی اپیل دائر کی تھی اور اب تک اس اپیل کی باقاعدہ سماعت شروع نہیں ہوسکی۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے ایک متفرق درخواست بھی دائر کی تھی جس میں انہوں نے نظرثانی اپیل کی سماعت براہ راست ٹی وی پر دکھانے کا کہا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس درخواست کی مخالفت کردی گئی ہے اور اس بارے میں فیصلے کے بعد نظرثانی اپیل کی سماعت شروع ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG