رسائی کے لنکس

جسٹس فائز عیسیٰ کیس، بینچ میں شامل ججز کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران 10 رکنی بینچ میں شامل ججز کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ جسٹس مقبول باقر نے بینچ چھوڑ کر جانے کی دھمکی دی جس کے بعد 10 منٹ کے لیے کارروائی روک دی گئی۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیے جانے کے حوالے سے نظرِ ثانی اپیل کی سماعت ہو رہی تھی۔

قاضی فائز عیسیٰ اس کیس میں اپنے دلائل مکمل کر چکے ہیں اور وفاقی حکومت کے وکیل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان دلائل دے رہے تھے۔

عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک جج پر حرف آنا پوری عدلیہ پر حرف آنے کے برابر ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سرینا عیسی کے لیے متعلقہ فورم فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ہی تھا، عدالت نے تو سرینا عیسی کے خلاف کوئی حکم جاری ہی نہیں کیا تھا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بیرونِ ملک مبینہ اثاثے چھپانے سے متعلق صدارتی ریفرنس مسترد کر دیا تھا۔ البتہ عدالت نے ایف بی آر کو ہدایت کی تھی کہ وہ اُن کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات کی چھان بین کر کے رپورٹ جمع کرائے۔

جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ ایف بی آر کا معاملہ میری اہلیہ اور ادارے کے درمیان ہے، حکومت صرف کیس لٹکانے کی کوشش کر رہی ہے، حکومت چاہتی ہے جسٹس منظور ملک کی ریٹائرمنٹ تک کیس لٹکایا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالتی فیصلے میں نہیں کہا گیا کہ سرینا عیسیٰ کا کیس آرٹیکل 187 کے تحت ایف بی آر کو بھیجا گیا، مکمل انصاف کا تقاضا ہے کہ کیس کو جلد مکمل کیا جائے۔

'یہ سماعت کسی دھونس سے نہیں چلے گی'

اس صورتِ حال پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ مسٹر عامر رحمان اختصار سے دلائل دیں، دوسرے فریق کو بھی وقت کی قلت کا کہتے رہے ہیں۔ ابھی جسٹس مقبول باقر بات کر رہے تھے کہ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہاں کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی، عامر رحمان صاحب سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔

اس پر جسٹس مقبول باقر نے جسٹس منیب سے کہا کہ آپ میری بات میں مداخلت نہ کریں، کسی سینئر کی بات میں مداخلت کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ کوئی کسی خاص وجہ سے تاخیر چاہتا ہے تو الگ بات ہے۔ پوری دنیا کیس دیکھ رہی ہے عدالتی وقار کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔

اس پر بینچ کے ایک اور جج جسٹس سجاد علی شاہ نے جسٹس مقبول باقر سے تلخ ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کسی کو نہیں روک سکتے وہ بات کرے گا۔ عامر رحمان کے لیے یا وقت مقرر کریں یا دلائل پورے کرنے دیں۔ انہوں نے کہا کہ بار بار وکیل کو ٹوکتے رہے تو میں اٹھ کر چلا جاؤں گا۔ اس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ سماعت کسی دھونس سے نہیں چلے گی اٹھ کر تو میں بھی جا سکتا ہوں۔

صورتِ حال کشیدہ ہونے پر ڈائس پر موجود حکومتی وکیل عامر رحمان نے کہا کہ مناسب ہوگا کہ عدالت 10 منٹ کا وقفہ کر لے۔ جسٹس مقبول باقر بولے کہ 10 منٹ کے وقفے سے کیا ہو گا؟

سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے 10 منٹ کا وقفہ کر دیا اور تمام جج صاحبان باہر چلے گئے۔

وقفے کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ کے لیے یہ حساس ترین کیس ہے۔ وقت محدود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو مؤقف ‏دینے سے روکیں۔

حکومتی وکیل عامر رحمان نے جسٹس مقبول باقر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ اگر میری کوئی بات آپ کو بری لگی ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں۔ جسٹس مقبول نے کہا کہ مجھے آپ کی کوئی بات بری نہیں لگی۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا پس منظر

مئی 2019 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

بعد ازاں سات اگست 2019 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر کی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔ لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔

عدالت عظمیٰ نے 19 جون 2020 کو جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دیا تاہم دس میں سات ججز نے فائز عیسیٰ کے خلاف عائد الزامات پر ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا تھا جس کے خلاف جسٹس فائز عیسیٰ اور مختلف بار کونسلز نے نظرثانی کی اپیلیں دائر کی تھیں۔

ان اپیلوں کی سماعت اب تک شروع نہیں ہوئی تھی اور عدالت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی طرف سے ان نظرثانی اپیلوں کو براہ راست دکھانے کے لیے ایک درخواست پر سماعت کی تھی جس کے فیصلہ میں یہ درخواست مسترد کر دی گئی ہے اور اب عدالت میں نظرثانی اپیلوں پر کارروائی کی جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG