رسائی کے لنکس

کراچی کی غیر قانونی تعمیرات، خاندان نگلنے لگیں


کراچی میں پانچ مارچ کو زمین بوس ہونے والی عمارت
کراچی میں پانچ مارچ کو زمین بوس ہونے والی عمارت

فرخ 12 بجے سے شام چھ بجے تک مسلسل اپنے فون سے رابطہ کر رہے تھے یہاں تک کہ وہ امدادی کارکن اُنہیں دیکھ بھی سکتے تھے۔ لیکن ملبہ اتنا زیادہ تھا کہ اسے ہٹانا ریسکیو ورکرز کے لیے انتہائی مشکل تھا۔ ایک لمحہ پھر ایسا بھی آیا جب فرخ نے بتانے کی کوشش کی کہ اب اُنہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے اور پھر اُنہوں نے مدد مانگنا چھوڑ دی۔

صبح تین بجے فرخ کی لاش ملبے سے نکال لی گئی۔ یہ کہنا ہے محمد احمد کا جو اس خاندان کے قریبی رشتے دار ہیں جن کے نو افراد اس واقعے میں جان کی بازی ہار گئے۔

فرخ عثمان اردو سائنس یونیورسٹی میں لیکچرار تھے لیکن ان کے علاوہ اس بلڈنگ میں ان کے گھر کے دیگر افراد بھی رہائش پذیر تھے جو اس حادثے کی نذر ہو گئے۔ 40 سالہ خرم خاموش اور سکتے کی حالت میں ہیں۔ خرم کی بیوی، دو بچے، ماں، بیوہ بہن، بھانجی، بھائی،بھتیجے اور بھابھی بلڈنگ گرنے سے ہلاک ہو گئے۔

کراچی کے علاقے گولیمار میں پانچ مارچ کو عمارت گرنے کے واقعے میں اب تک 18 ہلاکتیں اور 30 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

کراچی میں کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں تنگ گلیوں میں کثیر المنزلہ عمارتیں نہ دکھائی دیں۔ ٹھیکے دار یا بلڈرز کوئی بھی پرانا گھر خرید کر اس پر پورشن کے نام پر کئی منزلیں تعمیر کرتے ہیں۔ اور پھر اپنے گھر کے خواہش مند افراد کو قیمت وصول کرکے حوالے کردیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک عمارت گولیمار میں گری جو پہلے سے پانچ منزلہ تھی اور اب اس پر چھٹی منزل تعمیر ہونے جارہی تھی۔

پانچ مارچ کو دوپہر 12 بجے علاقے میں ایک دھماکے کی آواز آئی۔ ہر جانب دھول ہی دھول تھی۔ کچھ دیر بعد منظر صاف ہوا تو معلوم ہوا کہ ایک رہائشی عمارت برابر والی عمارت پر گری اور دوسری عمارت کی بالائی منزل ساتھ بنے گراونڈ فلور پر جا گری۔

محمد احمد کے مطابق ان کی 80 سالہ پھوپھی شمیم اختر اس بلڈنگ میں اپنے چار بیٹوں، دو بہوؤں اور ایک بیوہ بیٹی اور ان کے بچوں کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔ جس پر کثیر منزلہ عمارت آکر گری تھی ۔جس وقت یہ واقعہ ہوا خاندان کے بیشتر افراد گھر میں موجود تھے۔ خرم، ان کے دو بچے اور ان کے بھائی خاور جو ذہنی معذور ہیں وہ اس واقعے میں محفوظ رہے۔

لیکن ان کے بھائی فرخ کافی دیر تک مدد کے طلب گار رہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد احمد نے بتایا کہ انہیں اس واقعے کی اطلاع دوپہر دو بجے ملی جب وہ گھر آئے اور انہوں نے ٹی وی پر بریکنگ نیوز دیکھی۔

احمد کے بقول اس لمحے بھی انہیں اندازہ نہیں ہوا کہ ان کے رشتے دار اس واقعے سے متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن فوٹیج دیکھنے پر وہ فوراً جائے حادثہ پر پہنچے۔ احمد کہتے ہیں کہ امدادی کارروائیوں میں تاخیر، وسائل کی کمی جیسے مسائل کا اُنہوں نے خود مشاہدہ کیا۔

جب امدادی ٹیمیں پہنچیں تو ان کے پاس ملبہ ہٹانے کے لئے کٹر اور گرینڈر تک موجود نہ تھے۔ اس وقت تک بلڈنگ میں پھنسے لوگوں کی مدد کے لیے آوازیں آرہی تھی جس میں میرا کزن بھی شامل تھا۔

محلے والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ سامان مہیا کیا لیکن تاخیر اور منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ اُنہوں نے بتایا کہ پھپھو کی ایک بیوہ بیٹی اپنے بیٹے اور 12 سالہ بیٹی کے ہمراہ اسی بلڈنگ میں رہائش پذیر تھیں۔ ان کی بیٹی کو جب ملبے سے نکالا گیا تو وہ زندہ تھی، لیکن اسپتال پہنچتے ہی دم توڑ گئی۔

احمد نے بتایا کہ خرم کے ایک بھائی فیاض بھی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اسی گھر میں رہتے تھے۔ لیکن اس وقت وہ اور ان کی فیملی گھر پر نہیں تھے اسی وجہ سے ان کی جان بچ گئی۔

خرم کے بھائی ستار کا گھر بھی اس واقعے میں متاثر ہوا تاہم وہ محفوظ رہے۔

تیس گھنٹے کے کربناک انتظار کے بعد اس خاندان کے آخری فرد کی لاش ملبے سے نکالی گئی جو گھر کی بزرگ خاتون شمیم اختر کی تھی۔ خرم نے اپنے گھر کے نو افراد کے جنازے اُٹھائے جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔

'آدھے گھنٹے بعد واپس آئی تو بلڈنگ گری ہوئی تھی'

علاقہ مکین اس واقعے سے ذہنی طور پرشدید متاثر ہوئے ہیں۔ انہیں اپنے علاقے میں تیزی سے تعمیر ہونے والی کثیر المنزلہ عمارتوں سے خوف محسوس ہو رہا ہے۔ جائے حادثہ پر موجود خاتون نے بتایا کہ وہ سودا سلف لینے کی غرض سے اس گلی سے آدھا گھنٹہ قبل گزری تھیں جب دوبارہ وہاں سے گزریں توبلڈنگ گری ہوئی تھی۔

انہوں نے حکومت اور کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے سوال کیا کہ پورا شہر ایسی عمارتوں سے بھرا پڑا ہے۔ پابندی کے باوجود ایسی عمارتیں تعمیر ہوتی جا رہی ہیں ان کو کون روکے گا؟

علاقہ مکین سوال اُٹھا رہے ہیں کہ جو لوگ اس حادثے میں اپنوں سے محروم ہوئے ہیں ان کا ازالہ کون کرے گا؟ لوگ اپنی ساری عمر کی جمع پونجی ایک گھر کو حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ بظاہر پختہ نظر آنے والے گھر کے بارے میں خریدار یا کرائے دار واقف نہیں ہوتا کہ اس گھر کی تعمیر معیاری بھی ہے یا نہیں ایسے واقعات کے بعد ارباب اختیار کیا اقدامات کریں گے۔؟

جائے حادثہ پر موجود عارف جو اس علاقے کے رہائشی بھی ہیں ان کے مطابق حالیہ برسوں میں علاقے میں غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب دو منزلہ عمارت سے زیادہ تعمیر کی اجازت نہیں تو کیسے بلڈر یا مالک مکان اس گھر پر تین اور پانچ منزلیں تعمیر کرلیتے ہیں؟ کوئی نہیں جانتا کہ کس معیار کا سریا، سیمنٹ عمارت میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ گھر 40 برس سے بھی زیادہ مدت کے بنے ہوئے ہیں ان کی بنیادیں کمزور ہیں اور اس پر مزید تعمیرات لوگوں کی زندگیاں نگل رہی ہیں۔

ثاقب رحمان بلڈنگ گرنے کے فورا بعد اپنی مدد آپ کے تحت مدد کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان کے مطابق جب عمارت گری تو ہر طرف دھواں دکھائی دینے لگا۔ جو عمارت گری اس کے گراونڈ فلور پر کلینک بھی تھی جہاں لوگ موجود تھے۔

ثاقب کے بقول عمارت گرتے ہی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ملبے تلے آنے والے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کی۔ وہ تین افراد کو ملبے سے نکالنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن پھر پولیس اور رینجرز کے آتے ہی مکینوں کو یہاں سے دور کر دیا گیا اور امدادی ٹیموں نے کام شروع کر دیا۔

احمد کے مطابق انہیں خاندان کے دیگر افراد سے معلوم ہوا کہ خرم اپنے گھر کے ساتھ بنی بلڈنگ کے حوالے سے ایک شکایت متعلقہ ادارے میں دے چکے تھے۔ کیوں کہ انہیں یہ خدشہ تھا کہ یہ عمارت پابندی کے باوجود بلند ہو رہی ہے۔ جس سے آس پاس کے گھروں کو بھی مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔

لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ خدشہ درست ثابت ہوجائے گا اور خرم کو اپنے ہی خاندان کے نو افرادکی قیمتی جانوں کو کھونے کا غم سہنا پڑے گا۔

XS
SM
MD
LG