رسائی کے لنکس

کراچی: گاڑی سے دو بچوں کی لاشیں برآمد، حادثہ یا قتل؟


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

کراچی میں چند روز قبل ناظم آباد کے علاقے میں پرانی کار سے دو بچوں کی لاشوں کی برآمدگی کا معاملہ اب بھی حل طلب ہے۔ پولیس نے قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ البتہ لواحقین کا کہنا ہے کہ واقعہ بچوں کی غفلت کا شاخسانہ ہے۔

13 مئی کو شہر کے علاقے منگھوپیر میں کار کے نزدیک تعفن پھیلنے کے بعد اہل علاقہ نے پولیس کو مطلع کیا۔ جس کے بعد گاڑی کو کھولنے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ملنے پر پولیس نے گاڑی کے شیشے توڑے تو اندر بچوں کی نعشیں پائی گئیں۔

پولیس حکام کے مطابق یہ علاقہ عبدالرحیم گوٹھ سے منسلک ہے اور منگھو پیر جانے والی یہ سڑک لاک ڈاون کے دوران بھی ٹریفک کے لیے کھلی تھی۔

دھول مٹی سے بھری یہ کار مکینک کے پاس لاک ڈاون سے قبل ہی ڈینٹنگ پینٹنگ کے لیے لا کر کھڑی کی گئی تھی جس سے بچوں کی لاشیں بر آمد ہوئیں۔

یہ بچے کون ہیں؟

کراچی کے پشتون اور کم آمدنی والے دو خاندانوں سے ان دونوں بچوں کا تعلق بتایا جاتا ہے۔ تین سالہ عبید سعید اور چار سالہ محمد زبیر آپس میں دوست تھے اور اکثر اس علاقے میں کھیلتے دکھائی دیتے تھے۔

پولیس حکام کے مطابق جس کار سے ان بچوں کی لاشیں ملی ہیں اس سے قریب ہی کی گلی میں یہ بچے رہائش پذیر تھے۔

دس مئی کو یہ دونوں بچے لاپتا ہوئے تو لواحقین نے اپنے طور ہر انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جس کے بعد 11 مئی کو منگھوپیر تھانے میں دونوں بچوں کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی۔

کم سن بچوں کی اہل خانہ کے ہمراہ تصویر (فائل فوٹو)
کم سن بچوں کی اہل خانہ کے ہمراہ تصویر (فائل فوٹو)

واقعہ حادثہ ہے یا قتل؟

بچوں کی لاشیں ملنے پر ابتدائی تحقیقات پر پولیس نے بیان جاری کیا کہ ممکنہ طور پر بچے کھیلتے ہوئے اس کار میں جا بیٹھے اور اندر سے گاڑی کو لاک کر لیا۔

لاک نہ کھلنے پر بچوں نے اسے کھولنے کی کوشش کی اور مدد طلب کرنا چاہی لیکن پھر دم گھٹنے سے ان کی موت واقع ہو گئی۔

لیکن جب عباسی شہید اسپتال لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے روانہ کی گئیں اور ابتدائی رپورٹ سامنے آئی تو اسکے بعد پولیس نے اس واقعے کو حادثے کے بجائے قتل قرار دیا اور تحقیقات شروع کر دیں۔

بچوں کی موت کی وجوہات کیا بنیں؟

عباسی شہید اسپتال کے سینئر ڈاکٹر عابد ہارون نے بچوں کے ڈیتھ سرٹیفیکٹ جاری کیے۔ جس کے مطابق دونوں بچوں کی موت سر پر وزنی چیز کی ضرب لگنے سے ہوئی۔

ڈاکٹر کے مطابق دونوں بچوں کے سر کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے اور لاشیں تین دن پرانی ہیں۔ ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سلیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ حادثہ نہیں قتل معلوم ہوتا ہے۔

اُن کے بقول بچوں کے ساتھ ممکنہ طور پر زیادتی کے امکان کے پیش نظر نمونے لیبارٹری بھجوا دیے گئے ہیںَ۔ جس کی حتمی رپورٹ آنے میں 10 سے 12 روز لگ سکتے ہیں۔

تحقیقات میں اب تک ہونے والی پیش رفت؟

ایس ایچ او منگھوپیر گل اعوان نے قتل کا شبہہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے پولیس علاقہ مکینوں سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔

اُن کے بقول جس دکان کے سامنے یہ گاڑی کھڑی تھی وہاں کے مکینک کے مطابق یہ دونوں بچے اکثر یہاں کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ وہ اکژ اوقات یہاں کھڑی ہونے والی گاڑیوں، رکشہ، ٹیکسی، بسوں میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔

مکینک کا کہنا ہے کہ ان بچوں کو کئی بار منع بھی کیا گیا تھا۔

یہی موقف بچوں کے لواحقین کا بھی تھا کہ بچے سڑک پر کھڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر کھیلتے تھے۔

پولیس کے مطابق جس کار سے لاشیں بر آمد ہوئیں ہیں اس کا کرائم ریکارڈ نہیں۔ گاڑی کا مالک خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتا ہے اور اس کار کی مرمت کے لیے اس نے اسے لاک ڈاون سے قبل یہاں لاکر چھوڑا تھا۔

ایس ایچ او کے مطابق گاڑی اندر سے لاک تھی اور اندر سے ہی اسے کھولنا ممکن تھا۔ بچوں کی جب لاشیں نکالی گئیں تو ان کے پاؤں میں چپلیں بھی موجود تھیں۔ تاہم ان بچوں کے خاندان کے مطابق ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کو قتل سمجھتے ہیں۔

ان کے نزدیک یہ واقعہ بچوں کی غفلت سے ہی رونما ہوا ہے۔ ایس ایچ او گل اعوان کے مطابق بچوں کی ٹیسٹ رپورٹس آنے سے ہی معاملات مزید سلجھ سکیں گے۔ لیکن اب تک اکھٹے کیے گئے شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے تفتیش کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے تاکہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔

XS
SM
MD
LG