رسائی کے لنکس

'کراچی کا کچرا ٹھکانے لگانا حکومت کی ترجیح نہیں رہا'


کراچی میں کچرے کے باعث مختلف بیماریاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)
کراچی میں کچرے کے باعث مختلف بیماریاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کچرا ٹھکانے لگانے کے ذمہ دار ادارے کے مطابق شہر میں اِس وقت لگ بھگ 15 سے 16 لاکھ ٹن کچرا موجود ہے۔ جب کہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات کے باعث شہر میں وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر اے ڈی سجنانی نے بتایا کہ کراچی میں روزانہ تقریباً 12 سے 13 ہزار ٹن کچرا اٹھایا جارہا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ کراچی میں پہلے سے موجود 15 سے 16 لاکھ ٹن کچرا ہے، جسے ٹھکانے لگانے سے ہی شہر میں صفائی ستھرائی کا نظام کچھ بہتر ہو گا۔

ڈاکٹر اے ڈی سجنانی کا کہنا ہے کہ کچرا اٹھانے اور اسے سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانے کا کام حکومتوں کی ترجیح نہیں رہا۔ جس کے باعث یہ معاملہ اب گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو گزشتہ سال بھی محض ڈیڑھ ارب روپے کے لگ بھگ بجٹ ملا جس میں سے زیادہ تر کراچی ہی میں صفائی ستھرائی پر خرچ کیا گیا۔

'کراچی کا کچرا ٹھکانے لگانا حکومت کی ترجیح نہیں رہا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:54 0:00

اے ڈی سجنانی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ شہر میں صفائی ستھرائی کی صورت حال تسلی بخش نہیں جب کہ اس کام کے لیے مختص بجٹ بہت کم ہے۔

سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے ایم ڈی کے خیال میں کچرا اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانے کا معاملہ کراچی میں ایک درجن سے زائد بلدیاتی اداروں میں حدود، اختیارات کی تقسیم اور پھر ایک دوسرے پر ذمہ داری عائد کرنے سے پیچیدہ ہو چکا ہے۔

اُن کے بقول اداروں کے درمیان رابطوں کا فقدان اور ان کے ذمے علاقوں میں کچرا پیدا ہونے اور ٹھکانے لگانے سے متعلق ناکافی معلومات کے باعث مشکلات درپیش ہیں۔ ایسے میں ادارے بغیر کسی ڈیٹا ہی کے کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہر میں صفائی ستھرائی کی ذمہ داری بانٹنے یا نچلی سطح پر دیے جانے کی بجائے ایک ادارے کے ماتحت ہونی چاہیے۔ اسی ادارے کو مکمل وسائل دیے جائیں تب ہی بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا قیام 2014 میں صوبائی اسمبلی کی جانب سے منظور شدہ بل کے بعد عمل میں لایا گیا تھا۔

کراچی میں کچرے کے معاملے پر سیاسی جماعتیں بھی تقسیم دکھائی دیتی ہیں۔
کراچی میں کچرے کے معاملے پر سیاسی جماعتیں بھی تقسیم دکھائی دیتی ہیں۔

سالڈ ویسٹ کے علاوہ صنعتی، زرعی اور طبی فضلے کو اُٹھانا اور اسے سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانا بھی اس ادارے کی ذمہ داری ہے۔

ماہرین کے مطابق کچرا اٹھانے کے بعد اسے سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانے کا کام محض کاغذوں کی حد تک ہی محدود ہے۔

حکام کے مطابق فی الحال ادارے کی تمام تر توجہ کراچی پر ہی مرکوز ہے۔ ادارے نے کراچی کے تین اضلاع میں صفائی کا ٹھیکہ دو مختلف چینی کمپنیوں کو دیا ہے۔ ان کمپنیوں کے ساتھ سات سال کا معاہدہ کیا گیا جس کے تحت کنٹریکٹر کو 30 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔

ایم ڈی سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے مطابق حکومت ان کمپنیوں کو ان اضلاع سے کچرا اٹھانے کے عوض تقریبا 17 امریکی ڈالرز فی ٹن معاوضہ دیتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ پاکستان میں اس شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کا سب سے کم ریٹ ہے۔

حال ہی میں بورڈ نے ضلع غربی میں صفائی کی صورت حال بہتر نہ ہونے پر وہاں کام کرنے والی کمپنی کو جرمانہ اور معاہدے کو منسوخ کیا ہے۔

کراچی کا کچرا اٹھانے کے معاملے پر سیاسی چپقلش بھی جاری ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کراچی کی ضلعی حکومت بورڈ کی بجائے خود یہ ذمہ داری لینا چاہتی ہے جب کہ وفاق میں حکمراں جماعت تحریک انصاف بھی میئر کراچی کے مؤقف کی حمایتی ہے۔

سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے ذریعے ہی شہر کی صفائی پر یقین رکھتی ہے اور اس ضمن میں اس نے سندھ اسمبلی سے بل بھی منظور کرا رکھا ہے۔

شہر میں مکھیوں کی یلغار

کراچی میں صفائی کی بدترین صورت حال کے باعث شہر میں مکھیوں کی یلغار دکھائی دیتی ہے۔ اس پر ڈاکٹر اے ڈی سجنانی نے بتایا کہ مون سون کے موسم میں ہوا میں پائی جانے والی نمی اور گرمی کے باعث مکھیوں کی تولید کا عمل 14 روز سے گھٹ کر 5 سے 7 روز تک ہو جاتا ہے۔

اُن کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت مکھیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اس کا حل صفائی کے ساتھ کچرا جلد ٹھکانے لگانے میں ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی شہر میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات پر تشویش ظاہر کی یے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث گزشتہ ایک ماہ میں 10 ہزار سے زائد مریض پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر سرکاری اور نجی اسپتالوں میں لائے گئے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG