رسائی کے لنکس

کراچی میں غیر معمولی بارشیں، نظام زندگی درہم برہم


ہفتے کی سہ پہر کو تیز ترین بارش نے شہر کی زندگی کو کسی حد تک متاثر کیا، مگر جلد ہی سڑکوں سے پانی خشک ہوگیا جس پر شہریوں نے اللہ کا شکر اد اکیا۔ ابھی اس کے اثرات سڑکوں سے ختم ہوئے ہی تھے کہ اتوار کی دوپہرکی بارش پھر زندگی کو اتھل پتھل کر گئی۔ پانی پھر خشک ہوگیا جس پر شہریوں کی اچھی خاصی تعداد نے شہری حکومت کے قصیدے بھی پڑھے مگر چونکہ چھٹی کا دن تھا اس لئے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ لیکن آج یعنی پیر کی دوپہر کو برسنے والی بارش نے ایک بار پھر سارے قصیدے بھلادیئے۔

کراچی میں پانچ جون کو سمندری طوفان کے سبب ہونے والی بارشوں کے بعد یہ شہر گویا بارشوں کی آماجگاہ سا بن گیا ہے۔ جون ہی نہیں جولائی کے وسط سے آخر تک اور اب اگست کے ابتدائی دنوں میں بارشوں کی بھرمار ہے۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں اتنی بارشیں ہونا غیر معمولی ہے۔ پچھلے کئی سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔

ہفتے کی سہ پہر کو تیز ترین بارش نے شہر کی زندگی کو کسی حد تک متاثر کیا، مگر جلد ہی سڑکوں سے پانی خشک ہوگیا جس پر شہریوں نے اللہ کا شکر اد اکیا۔ ابھی اس کے اثرات سڑکوں سے ختم ہوئے ہی تھے کہ اتوار کی دوپہرکی بارش پھر زندگی کو اتھل پتھل کر گئی۔ پانی پھر خشک ہوگیا جس پر شہریوں کی اچھی خاصی تعداد نے شہری حکومت کے قصیدے بھی پڑھے مگر چونکہ چھٹی کا دن تھا اس لئے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ لیکن آج یعنی پیر کی دوپہر کو برسنے والی بارش نے ایک بار پھر سارے قصیدے بھلادیئے۔

کے ڈی اے چورنگی سے کراچی شہر کا ہرباسی واقف ہے۔ یہ نارتھ ناظم آباد اور ناظم آباد کے سنگم پر واقع ہے۔ بورڈ آفس سے حیدری کی طرف آتے ہوئے اس کے بائیں جانب چند چھوٹی چھوٹی اورخشک پہاڑیاں موجود ہیں لیکن ان پہاڑیوں پر بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ کراچی اور خصوصاً نارتھ ناظم آباد میں جب بھی بارش ہوتی ہے ان پہاڑیوں کی ڈھلوانوں سے بہہ کر سارا پانی کے ڈی اے چورنگی پر جمع ہوجاتا ہے۔ یہاں پانی کا بہاوٴ اس قدر تیز ہوتا ہے کہ سڑک کے کنارے کنارے چلتا برساتی نالہ پلک جھپکتے ہی بھر جاتا ہے اور تھوڑی دیر میں ہی سڑک اور نالے کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ صدر، ٹاور، گرومندر اور دیگر علاقوں سے نیوکراچی اور نارتھ کراچی آنے والے ہیوی ٹریفک کا گزر یہیں سے ہوتا ہے۔ پھر تجارتی سامان کی ترسیل سے لدے ٹرک بھی یہیں سے ہوکر آتے جاتے ہیں۔ سائٹ سے آنے والے ٹریفک کا راستہ بھی کے ڈی اے چورنگی سے ہی ہوکر گزرتا ہے یوں جوچورنگی یا چوراہا پہلے ہی شدید پانی سے بھرا ہوتا ہے ،ٹریفک کے آنے جانے کی وجہ سے ابل پڑتا ہے۔

آج دوپہر کی بارش کے بعد بھی یہی ہوا۔ پہاڑوں سے آنے والے شدید برساتی پانی نے پوری چورنگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے بعد وہاں سے گزرنے والی سوزوکیوں، کاروں، رکشاوٴں اورٹیکسیوں کے آدھے آدھے ٹائر اس پانی میں ڈوب گئے ۔ پانی کا دباوٴ اس قدر زیادہ اور بہاوٴ اتنا تیز تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں گاڑیاں راستے میں ہی خراب ہوگئیں جس سے ٹریفک کی روانی میں بری طرح خلل واقع ہوا اور سارا ٹریفک بری طرح جام ہوگیا۔

چونکہ یہ دفاتر اور فیکٹریوں و کارخانوں سے چھٹی کا وقت تھا اس لئے نصف گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ ٹریفک کا ایک اژدھام کھڑا ہوگیا۔ دو رویا سڑکیں پانی کے ساتھ ساتھ ہزاروں گاڑیوں سے اٹی پڑی تھیں۔ چوراہے سے ٹریفک پولیس کا بھی دور دور تک کوئی واسطہ نظر نہ آیا۔ جس کا جدھر منہ اٹھا چلنے لگا لہٰذا ٹریفک آگے بڑھنے کے بجائے گاڑیاں ایک دوسرے میں بری طرح پھنس گئیں۔

شام چار بجے سے رات کے آٹھ بجے تک ٹریفک جام رہا۔ اس دوران کئی افراد کے موبائل سیل کی بیٹریاں جواب دے گئیں اور وہ گھر والوں سے بھی رابطہ نہ کرسکے۔ جن گاڑیوں میں خواتین سوار تھیں وہاں سے بچوں کے رونے اور بلکنے کے مسلسل آوازیں آرہی تھیں۔ بچے بھوک سے اور خواتین گرمی سے تڑپ رہی تھیں۔ بعض منچلوں نے گاڑیوں سے نکل کر بونٹ پر بیٹھ کر گانے گانے شروع کردیئے تھے کہ کسی طرح تو وقت کٹے۔ ایسے میں سب مجبور اور بے بس تھے۔ چند گاڑیوں کا ایندھن تک ختم ہوگیا تھا ۔

بری طرح پھنسے ہوئے ٹریفک اور پانی میں ڈوبی ہوئی گاڑیوں کو دیکھ کر جانے کہاں سے چند ایک موٹر مکین ہاتھ میں پیچ کس اور پلاس لئے لوگوں سے گاڑی اسٹارٹ کرنے کا پوچھتے پھر رہے تھے۔ کچھ لاچارلوگوں نے ان سے سودا بھی کیا اور کچھ زیادہ پیسے کا سن کر خود ہی طبع آزمائی کرنے لگے۔

گھنٹوں کے حساب سے برسنے والی بارش کے باوجود بلا کا حبس تھا، آسمان صاف نہ تھا اور ایسا لگتا تھا کہ پھر بارش ہوگی۔ غالباًبھیڑ میں پھنسے ہوئے تمام افراد یہ سوچ رہے تھے کہ اگر موسم مزید خراب ہوگیا یا بارش ہوگئی تو کیا ہوگا؟ انہی پھنسے ہوئے افراد میں سے ایک بزرگ بھی تھے جو اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک کو کنٹرول کررہے تھے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ یہ کراچی کے نصیب کی بارشیں ہیں! تھوڑی بہت پریشان ہوگی۔۔۔ پھر سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا۔

سروس روڈ بھی پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس دوران ایک ایمبولیس بھی ٹریفک جام میں پھنسی نظر آئی جسے بڑی مشکل سے سروس روڈ پر راستہ ملا ۔ اس سے قبل جو ٹریفک جام ہوتے رہے ہیں ان میں اکثر ایمبولیس میں موجود مریض ابتدائی علاج معالجے سے قبل ہیں راہی ملک عدم ہوچکے ہیں۔ شکر ہے آج ایسا نہیں ہوا۔

کئی گھنٹوں بعد ان پھنسی ہوئی گاڑیوں کو راہ دکھانے کے لئے اسی علاقے کے کچھ لوگ آگے آگئے اور انہوں نے لوگوں کو چورنگی سے دائیں طرف جانے کا مشورہ دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرف پانی کم ہے۔

وائس آف امریکا کے اس نمائندے نے بھی گاڑی کارخ اسی طرف موڑ دیا۔ دیگر کئی درجن گاڑیوں بھی اسی طرف کو مڑ گئیں۔ بلآخر مختلف گلیوں اور چھوٹے بڑے راستوں سے ہوتے ہوئے ٹریفک کا اژدھام کٹی پہاڑی کی طرف نکل آیا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں کئی دن پہلے ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے شدید خوف و ہراس کا سماں تھا مگر آج اسی جگہ درجنوں لوگ ٹریفک جام میں پھنسے افراد کی راہ نمائی کررہے تھے اور یوں لگتا تھا کہ گویا یہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یہاں سے ٹریفک کا راستہ صاف تھا مگر کٹی پہاڑی پہنچ کر یہ خیال ضرور آیا کہ اگر واقعی بارش کی وقتی پریشانیوں سے بھائی چارے کی فضاء قائم ہوتی ہے تو یہ ٹریفک روز جام ہو۔

XS
SM
MD
LG