رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مسئلہ کشمیر پر اثرات


دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مسئلہ کشمیر پر اثرات
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مسئلہ کشمیر پر اثرات

پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں ہر سال کی طرح جمعے کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جارہا ہے جس کا مقصد بھارت کے زیر انتظام اس منقسم علاقے کے عوام کو حمایت کا یقین دلانا اور عالمی سطح پر اس دیرینہ تنازع کے حل کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

رواں سال پاکستانی تجزیہ نگار اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اس تشویش کا اظہار کررہے ہیں کہ 11 ستمبر کے بعد سے شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے بین الاقوامی برادری کی توجہ کا مرکز مسئلہ کشمیر سے منتقل کردیا ہے اور فی الحال اس تنازعے کے حل میں عالمی طاقتوں کی طرف سے کسی کردار کے امکانات کو معدوم کردیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل تنویر احمد خان نے کہا کہ موجودہ عالمی حالات میں امریکہ سمیت دوسری عالمی قوتیں انسداد دہشت گردی کی جنگ میں اس قدر الجھی ہوئی ہیں کہ کوئی بھی بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دباؤ نہیں ڈال رہا۔ جب کہ امریکہ کے ساتھ بھارت کی فروغ پاتی سٹریٹیجک پارٹنر شپ نے تنویر احمد خان کے مطابق بھارت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے کے حوالے سے ہمت فراہم کی ہے۔

ان کی رائے میں یہی وجہ ہے کہ اب بھارت مختلف وجوہات کو بنیاد بنا کر پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کی بجائے کشمیری قیادت سے دوطرفہ طور پر مسائل کے حل کے لیے ہاتھ بڑھا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں تنویر احمد خان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ”کیونکہ دونوں ہی ملک جوہری قوت سے لیس ہیں اور اگر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دو طرفہ کشیدگی ایک خاص حد سے تجاوز کرتی ہے تو ایٹمی جنگ چھڑنے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے جو عالمی برادری کبھی نہیں چاہے گی“۔

تنویر احمد خان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کی سنگینی کا احساس تو یقینا موجود ہے ”لیکن عالمی برادری کی کوششیں صرف اس حد تک محدود نظر آرہی ہیں کہ تنازع ہاتھ سے نہ نکلے جب کہ اس کے مستقل حل کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے“۔ اسی رائے کی تائید پاکستانی کشمیر سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار اور سیاست دان پروفیسر خالد ابراہیم بھی کرتے ہیں ”وہ ممالک جو آج سے 62 سال پہلے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کرتے تھے آج ایسے مسائل سے دوچار ہیں کہ لوگ خود ان سے حق خودارادیت کی مانگ کررہے ہیں“۔اسی لیے ان کے بقول کشمیریوں کے لیے عالمی حمایت بے حسی میں تبدیل ہورہی ہے۔

پاکستانی کشمیر کے سابق صدر سردار انور خان کا نکتہ نظربھی زیادہ مختلف نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف 11 ستمبر کے بعد شروع ہونے والی جنگ نے پاکستان کو اگرچہ جانی اور مالی لحاظ سے بہت نقصان پہنچایا لیکن ان کے مطابق اس لڑائی نے بھارت کو اس لحاظ سے فائدہ بھی پہنچایا کہ کشمیریوں کی جدوجہد برائے حق خود ارادیت کو دہشت گردی یا مزاحمتی تحریک کے پیرائے میں دیکھا جانے لگا” اس طرح کشمیریوں کے لیے عالمی سطح پر حمایت اور حسساسیت میں کمی ہوئی اور بھارت کے قدم مضبوط ہوئے “۔

تاہم سابق صدر پرامید ہیں کہ آئندہ ایک دہائی کے اندرجنوبی ایشیاء کے منظر نامے میں خاطر خواہ تبدیلی واقع ہوگی کیونکہ امریکہ کی طرف سے افغانستان سے 2011ء تک واپسی کا ارادہ اور طالبان جنگجوؤں کو قومی دھارے میں لانے کے حوالے سے حکمت عملی کئی دلچسپ اور حیران کن واقعات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

سردار انور خان کی رائے میں خطے سے امریکہ اور اتحادی افواج کی واپسی بھارت کی پوزیشن کو کمزور کرسکتی ہے اور اس پر ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دباؤ قائم ہوگا۔

XS
SM
MD
LG