رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات؛ غیر مقامی مزدوروں نے نقل مکانی شروع کر دی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے واقعات کے بعد یومیہ اجرت پر کام کرنے والے غیر مقامی مزدور بڑی تعداد میں واپس اپنے علاقوں کو لوٹ رہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات میں اب تک گیارہ افراد مارے گئے ہیں جن میں بھارتی ریاست بہار اور اُترپردیش سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔

پیر کی صبح سری نگر کے بس اڈوں اور ریلوے اسٹیشنز پر ایسے ہزاروں افراد موجود تھے جو واپس اپنے علاقوں کی جانب روانہ ہو گئے ہیں۔

ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے منوج کمار ساہ نامی مزدور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وادی کے حالات خراب ہو رہے ہیں اس لیے یہاں مزید رہنا دانش مندی نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر مزدور ہر سال موسمِ گرما شروع ہوتے ہی کشمیر آ جاتے ہیں اور گزشتہ 25 برسوں سے ان کا یہی معمول ہے۔ ان کے بقول یہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں اور انہیں بلاتاخیر اجرت مل جاتی ہے۔

منوج کمار نے مزید بتایا کہ وادی کے سیاسی حالات کی وجہ سے انہیں ماضی میں بھی کئی بار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس بار خطرہ زیادہ سنجیدہ لگتا ہے۔

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وادی کے بعض حساس علاقوں میں موجود غیر مقامی مزدوروں اور کاریگروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق عسکریت پسندوں کی جانب سے بجلی گھروں سمیت اہم تنصیبات پر ممکنہ حملوں کے خطرات کے پیشِ نظر علاقے میں ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ حالیہ چند روز کے دوران بھارتی کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے گیارہ میں سے چھ مقامی شہری تھے جن میں اقلیتی کشمیری پنڈت فرقے سے تعلق رکھنے والا ایک کیمسٹ، ایک استاد، سری نگر کے ایک سرکاری اسکول کی سکھ پرنسپل اور ایک کیب ڈرائیور سمیت تین مسلم باشندے شامل تھے۔

پولیس حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ دار تنظیم 'ٹی آر ایف' دراصل کالعدم عسکری تنظیم 'لشکرِ طیبہ' کا ایک 'شیڈو گروپ' ہے۔ تاہم لشکرِ طیبہ اور ٹی آر ایف نے اس الزام کی بارہا تردید کی ہے۔

پولیس یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ گزشتہ 10 روز کے دوران اس نے بھارتی فوج اور وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ساتھ مل کر عسکریت مخالف آپریشنز میں جن 13 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے اُن میں سے کم از کم پانچ ٹارگٹ کلنگز کے حالیہ واقعات میں ملوث تھے۔

پولیس کے آپریشن میں ہلاک ہونے والے ایک مبینہ عسکریت پسند امتیاز احمد ڈار کے اہلِ خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ اُن کے بیٹے کو ماورائے عدالت ایک جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔ تاہم پولیس نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان 11 اکتوبر سے جاری جھڑپوں میں دو جونیئر کمیشنڈ افسران سمیت 9 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

عسکریت پسندوں کے خلاف جارحانہ فوجی مہم

ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف جارحانہ مہم شروع کر رکھی ہے جس کے دوران ایک نجی گھر کو تباہ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب پولیس نے کریک ڈاؤں کے دوران مختلف علیحدگی پسند تنظیموں کے سیکڑوں ارکان، ہمدردوں اور حامیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز پر ماضی میں پتھراؤ اور توڑ پھوڑ کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث نوجوانوں، عسکری تنظیموں کے مشتبہ ورکروں اور دیگر 'ناپسندیدہ' افراد اور ممکنہ فسادیوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چند سوشل میڈیا صارفین اور صحافیوں کو بھی قید کر دیا گیا ہے یا انہیں متنبہ کیا ہے وہ اپنی سرگرمیوں سے باز رہیں۔

غیر ریاستی مزدور کشمیر کیوں آتے ہیں؟

موسم بہار کی آمد پر بھارتی ریاستوں خصوصاً بہار، اتر پردیش، مغربی بنگال اور بعض دوسرے علاقوں سے بڑی تعداد میں ہنر مند اور غیر ہنر مند روزگار کی لاش میں جموں و کشمیر اور لداخ کا رُخ کرتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق مئی میں ان کی مجموعی تعداد اڑھائی سے تین لاکھ تک بڑھ جاتی ہے۔ ان میں سے اکثر زیرِ تعمیر مکانوں اور دوسری عمارتوں، سڑکوں اور ٹنلوں پر کام کرتے ہیں یا پھر دھان کے کھیتوں اور باغات میں مشغول نظر آتے ہیں۔

اس ورک فورس کا تقریباً 95 فی صد حصہ نومبر کے وسط میں اپنے گھروں کو لوٹ جاتا ہے۔

مزدوروں کا کہنا ہے کہ وہ تلاشِ معاش کے لیے وادیٔ کشمیر کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ وہ بھارت کے اکثر مقامات پر جھلسا دینے والی گرمی سے بچ جاتے ہیں اور یہاں انہیں ان کی مرضی کے مطابق اجرت بھی ملتی ہے۔

یاد رہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے پانچ اگست 2019 کو اٹھائے گئے متنازع اقدامات اور اس کے بعد جموں و کشمیر میں ایک کے بعد دوسرا قانون نافذ کرنے اور پہلے سے موجود قوانین بالخصوص ڈومیسائل اور اراضی سے متعلق قوانین میں رد و بدل نے مقامی مسلم آبادی میں ہیجانی کیفیت کو جنم دیا ہے۔

بھارتی کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے واقعات کے خلاف احتجاج
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:33 0:00

آئینِ ہند کی دفعہ 370 کے ساتھ ہی اس کی ذیلی دفعہ 35 اے کے تحت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں زمینیں اور دوسری غیر منقولہ جائیدادیں خریدنے، سرکاری نوکریاں اور وظائف حاصل کرنے، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔

البتہ نئے قانون اقامت کے تحت غیر مقامی افراد کو بھی شہریت کی سندیں عطا کی جا رہی ہیں جب کہ ترمیم شدہ اراضی قانون کے تحت بھارت کا کوئی بھی شہری جموں و کشمیر میں بعض شرائط کو پورا کر کے غیر منقولہ جائیداد کا مالک بن سکتا ہے۔

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو چھوڑ کر بیشتر سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات سے جموں و کشمیر اور اس کے عوام کے مفادات کو زک پہنچے گی جب کہ نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا اتحاد حریت کانفرنس بر ملا طور پر یہ الزام لگاتی آئی ہیں کہ ان اقدامات کا مقصد مسلم اکثریتی ریاست کی آبادیات کو تبدیل کرنا ہے۔

لداخ میں بھی اختلافی آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور بعض سیاسی حلقے کھلے عام مزاحمت کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ کشمیر سے 1990 میں نقلِ مکانی کرنے والے پنڈتوں یا برہمن ہندوؤں کا ایک حلقہ یہاں چھوڑی گئی غیر منقولہ جائیداد کو واپس حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ محکمۂ مال کے بعض عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اُن پر حکومت کی طرف سے کافی دباؤ ہے۔

ان کشمیری پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ان کے مکانات اور زمینوں پر چند بے ایمان افراد اور لینڈ مافیا نے زبردستی قبضہ کر رکھا ہے،لیکن دوسری جانب کئی مقامی مسلمانوں نے الزام لگایا ہے کہ انہیں متعلقہ محکمے کی طرف سے بلا جواز ہراساں کیا جارہا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہان ہے کہ انہوں نے 1990 کی دہائی کے دوران یا اس کے بعد پنڈتوں اور وادی سے ہجرت کرنے والے دوسرے ہندوؤں سے مارکیٹ ریٹ پر اور ضروری قانونی لوازمات پورا کرنے کے بعد ہی ان کی غیر منقولہ جائیدادیں خریدی تھیں۔

کیا جموں و کشمیر سیاحوں کے لیے محفوظ ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:20 0:00

تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کا کہنا ہے مقامی آبادی میں خدشات اور اضطرابی کیفیت کے درمیان کئی لوگ غیر مقامی افراد کو ان کے حقوق غصب کرنے والے یا قابض سمجھنے لگے ہیں۔

لیکن بھارت کے ایک سرکردہ صحافی اور سیاسی تبصرہ نگار ونود شرما کا کہنا ہے کہ وادیٔ کشمیر میں اقلیتوں پر حملے بھارت کی اکثریتی ہندو آبادی میں کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت اور دشمنی کو بڑھا سکتے ہیں اور نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اس صورتِ حال کو انتخابی سیاست میں اپنے حق میں اور بشمولِ معاشی محاذ پر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔

ان کے بقول کشمیر سے متعلق حکومت کے 2019 کے متنازع اقدامات کے باوجود کشمیر میں خونریزی کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔

ونود شرما کہتے ہیں حکمرانوں کو یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ جموں و کشمیر میں درپیش مسئلے کو سیاسی طور پر ہی حل کیا جاسکتا ہے اور سلسلے میں اُن عوامل پر توجہ دینا ہوگی جو تشدد اور لوگوں میں بیگانگی کی وجہ بن رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG