رسائی کے لنکس

کوریائی خطے میں کشیدگی، دنیا کی نظریں چین پر


شمال کوریا کی طرف سے گولہ باری کے بعد جنوبی کوریا کے جزیرے یون پیونگ پر تباہ شدہ گھروں کا ایک منظر
شمال کوریا کی طرف سے گولہ باری کے بعد جنوبی کوریا کے جزیرے یون پیونگ پر تباہ شدہ گھروں کا ایک منظر

دنیا کے بہت سے ملکوں نے شمالی کوریا کی طرف سے جنوبی کوریا کے ایک جزیرے پر گولہ باری کی مذمت کی ہے، اور اس کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں تازہ ترین خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تجزیہ کار اور سرکاری عہدے دار کہتے ہیں کہ چین کو جو شمالی کوریا کا خاص اتحادی ہے، اس کے رویے کو تبدیل کرنے کے لیے زیادہ دباؤ ڈالنا چاہیئے۔

جب کبھی کوریا کے جزیرہ نما میں کشیدگی بڑھتی ہے، دنیا کی نظریں چین کی طرف جاتی ہیں۔ شمالی کوریا کی سب سے زیادہ تجارت چین کے ساتھ ہوتی ہے اور بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود، چین ہی اسے سیاسی حمایت اور اقتصادی امداد فراہم کرتا ہے

واشنگٹن کے کاٹو انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو ڈگ بانڈو کہتے ہیں ’’صرف چین ہی ایسا ملک ہے جس کا شمالی کوریا پر اثر ہے اور اس اثر کی وجہ یہ ہے کہ چین ہی شمالی کوریا کی توانائی اور غذا کی بیشتر ضرورتیں پوری کر تا ہے۔ تو خیال یہ ہے کہ اگر چین واقعی شمالی کوریا کے خلاف کارروائی کرنا چاہتا ہے اور اس کو فراہم کیے جانے والے سامان کی مقدار میں کمی کرنے یا اسے روکنے کو تیار ہے، تو شمال پر اس کا اثر ضرور پڑے گا۔ اب تک چین نے اپنے اس اثر و رسوخ کو استعمال کرنے سے انکار کیا ہے۔ چین کے سوا کوئی اور ملک شمالی کوریا پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔‘‘

منگل کی بمباری پر جس میں جنوبی کوریا کے دو فوجی اور دو سویلین باشندے ہلاک ہوئے، چین کا رد عمل بہت دھیما ہے۔ چینی عہدے داروں نے شمالی اور جنوبی کوریا دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ امن قائم رکھنے کے لیے کام کریں۔

ہریٹیج فائونڈیشن کے ایک ماہر، بروس کلنگر کہتے ہیں کہ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ چین پر واضح کر دے کہ اس کی موجودہ پالیسی سے مسائل اور زیادہ شدید ہو گئے ہیں۔ چین نے شمالی کوریا کی اشتعال انگیزیوں اور خلاف ورزیوں کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سے شمالی کوریا کی اور زیادہ حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔

اس سال کے شروع میں، بین الاقوامی تفتیش کے نتیجے میں پتہ چلا کہ جنوبی کوریا کے ایک بحری جہاز پر حملہ کرنے اور اسے ڈبونے کا ذمہ دار شمالی کوریا تھا۔ اس حملے میں جنوبی کوریا کے 46 ملاح ہلاک ہو گئے تھے۔ چین نے اس حملے پر شمالی کوریا کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

کلنگر کہتے ہیں کہ چین شمالی کوریا کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ اس سے شمالی کوریا کے خلاف اقوامِ متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں اور چھہ فریقی مذاکرات کو نقصان پہنچتا ہے۔ چین چھہ فریقی مذاکرات کا چیئرمین ہے جن کا مقصد شمالی کوریا کے نیوکلیئر اسلحہ کے پروگرام کو ختم کرنا ہے۔

امریکی عہدے دار کہتے ہیں کہ ان مذاکرات کے تمام فریقوں، چین، جنوبی کوریا، جاپان اور روس کو جزیرہ نما کوریا میں تازہ ترین واقعات کے بارے میں متحدہ موقف اختیار کرنا چاہیئے۔

کوریائی خطے میں کشیدگی، دنیا کی نظریں چین پر
کوریائی خطے میں کشیدگی، دنیا کی نظریں چین پر

منگل کے گولہ باری کے واقعے سے پہلے ہی، چھہ فریقی مذاکرات میں امریکہ کے سفیر، کِم سنگ نے کہا تھا کہ چین کو مذاکرات کے چیئرمین کی حیثیت سے، صرف ثالثی کے بجائے، زیادہ سرگرمی سے حصہ لینا چاہیئے۔ اسے شمالی کوریا سے بات کرنی چاہیئے اور اس کے طرز عمل میں اعتدال لانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ ماضی میں چین نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے سے انکار کیا ہے، تو پھر یہ بات واضح نہیں ہے کہ امریکہ چین کے طرز عمل میں تبدیلی لانے کے لیے کیا کر سکتا ہے۔

چین کے صدر ہو جن تائو اگلے سال کے شروع میں امریکہ کے دورے پر آ رہے ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس موقعے کو چین سے کچھ رعایتیں حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہریٹیج فائونڈیشن کے بروس کلنگر کو شبہ ہے کہ ایسا ہوگا۔

کوریائی خطے میں کشیدگی، دنیا کی نظریں چین پر
کوریائی خطے میں کشیدگی، دنیا کی نظریں چین پر

امریکہ اس خیال سے کہ چین کا رویہ کیا ہوگا، خود اپنے اوپر بعض پابندیاں لگا رہا ہے ۔ اس سال کے شروع میں جنوبی کوریا کے بحری جہاز Cheonan کے ڈبوئے جانے کے بعد، امریکہ نے Yellow Sea میں اپنی جنگی مشقوں کے منصوبوں میں تاخیر کر دی تھی۔ Yellow Sea جزیرہ نمائے کوریا اور چین کے شمال مشرقی ساحل کے درمیان واقع ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ مشقیں جن میں طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس جارج واشنگٹن کو بھی شامل ہونا تھا، چین کی طرف سے بار بار کے اعتراضات کے باعث موخر کر دی گئی تھیں۔ تاہم، بدھ کے روز، امریکہ کے فوجی عہدے داروں نے سیول میں اعلان کیا کہ گولہ باری کے واقعے کے جواب میں چار روزہ مشقیں کی جائیں گی۔ یہ مشقیں اتوار کو Yellow Sea میں شروع ہوں گی اور ان میں طیارہ بردار جہاز جارج واشنگٹن بھی شامل ہوگا۔

سنٹر فار آ نیو امریکن سکیورٹی کے ایب ڈنمارک کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ شمالی کوریا کی معیشت میں بیجنگ کا کردار بہت اہم ہے، لیکن شمالی کوریا کے ساتھ اس کے تعلقات کی وجہ سے، دوسرے علاقوں میں چین کے مفادات متاثر ہو رہے ہیں۔

’’ہم نے دیکھا کہ Cheonan کے ڈبوئے جانے پر چین کا جو رد عمل تھا، اس کی وجہ سے جنوبی کوریا کے ساتھ چین کے تعلقات پر بہت برا اثر پڑا۔ چنانچہ، بہت سے لوگ اب اس انتظار میں ہیں کہ کیا چین نے اس قسم کی حرکتوں پر اپنا رویہ تبدیل کیا ہے یا نہیں اور کیا اس بار اس کا رویہ Cheonan کے واقعے کے رویے سے مختلف ہوگا۔‘‘

ڈنمارک کہتے ہیں کہ اگرچہ گولہ باری کے واقعے پر چین کا ابتدائی رد عمل بہت معمولی سا تھا، لیکن انہیں توقع ہے کے آنے والے دنوں میں چین کے رویے میں تبدیلی آئے گی۔

XS
SM
MD
LG