رسائی کے لنکس

شمالی کوریا کو جنوبی کوریا کے جہاز ڈبونے کے نتائج کاسامنا کرنا ہوگا: ہلری کلنٹن


امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ اس بات کے ثبوت ملے ہیں کہ شمالی کوریا، جنوبی کوریا کے ایک جنگی جہاز کے ڈوبنے کے واقعے میں ملوث ہے۔ جس میں جہاز کے عملے کے 46 ارکان بھی مارے گئے تھے۔ جمعرات کے روز ایک عالمی تفتیشی ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں شمالی کوریا کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ امریکی وزیرِ خارج ہلری کلنٹن کا ایشیا کا تین ملکی دورہ چین اور امریکہ کے معاشی مسائل کے بارے میں تھا لیکن شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیش نظر اس معاملے کو اہمیت حاصل رہے گی۔ ہلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دورے میں اس معاملے پر عالمی ردعمل کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گی۔

ایشیا کے اپنے دورے کے آغاز ہی میں ہلری کلنٹن نےشمالی کوریا کو اس واقعے میں ملوث ہونے کا مورد الزام ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں شمالی کوریا کو یہ پیغام پہنچانا ضروری ہے کہ اس پیش قدمی کے نتائج بھی ہوں گے۔

جنوبی کوریا نے بھی 26 مارچ کو شمالی کوریا کو، اقوام متحدہ کی مقرر کردہ سمندری سرحد کے قریب اپنے جنگی جہاز چین ون کو ڈبونے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اگرچہ اس سرحد کو شمالی کوریا نے کبھی تسلیم نہیں کیا ہے۔

شمالی کوریا نے اس بات سے انکار کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر جنوبی کوریا نے کوئی جوابی کاروائی کی تو وہ اس سے تمام تعلقات کو نظر انداز کرتے ہوئے جنگ کا اعلان کر دے گا۔

لیکن سیکرٹری کلنٹن کا کہنا ہے کہ عالمی ماہرین کی سائنسی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جہاز کے ڈوبنے کی وجہ اس پر مبینہ طور پر جنوبی کوریا کی طرف سے کیا گیا حملہ تھا۔

جنوبی کوریا کے صدر نے جمعے کے روز ایک نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ یہ حملہ اقوام متحدہ کے اس چارٹر کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت 1953 ء میں کوریا کی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔

جنوبی کوریا یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے جا رہا ہے۔ جبکہ شمالی کوریا کو پہلے ہی اپنی جوہری سرگرمیوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیوں کی سامنا ہے۔

کوریا کے حوالے سے تجزیہ کار، نکولس زیچنی کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاونسل کےلیے ضروری ہے کہ وہ شمالی کوریا کی باضابطہ طور پر مذمت کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ، جنوبی کوریا اور تمام اتحادیوں کو چاہیے کے اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں چین کا ایک اہم کردار ہے۔ چین شمالی کوریا سے نرم رویہ رکھتا ہے تاکہ علاقے میں استحکام قائم رہے۔

ایک اور تجزیہ کار بروس کلنگر کا کہنا ہے کہ چین ماضی میں بھی شمالی کوریا کی حمایت کرتا رہا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ چین ہمیشہ سے شمالی کوریا کے خلاف اقوام متحدہ کے قوانین کی عمل درآمد میں کمزور رہا ہے۔ سیکیورٹی کونسل میٕں چین شمالی کوریا کے حلیف کی حیثیت رکھتا ہے۔ شمالی کوریا کے اس بلا اشتعال حملے کے ثبوت ملنے کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ کیا چین باقی دنیا کے ساتھ مل کر اس کی مذمت کرتا ہے یا حقیقت کے منافی شمالی کوریا کی حفاظت کرتا رہے گا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شمالی کوریا ماضی میں بھی اس طرح کی جارحانہ کاروائیاں کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس بات کاا علان بھی ہو سکتا ہے کہ شمالی کوریا کمزور نہیں۔ بعض اوقات کمزور محسوس کرتے ہوئے یا دنیا سے یہ تاثر لے کر کہ وہ کمزوری دکھا رہا ہے شمالی کوریا یہ کر سکتا ہے۔

تجزیہ کار زیچینی کا کہنا ہے کہ اگر چین عالمی مذمت میں اپنا کردار ادا نہیں کرتا تو بھی ، امریکہ اور جنوبی کوریا مل کر جنگی مشقوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ جنوبی کوریا شمالی کوریا سے اپنے معاشی تعلقات کو محدود کرسکتا ہے۔ اور امریکہ جنوبی کوریا کو دہشت گرد ی کی سرپرستی کرنے والے ممالک کی فہرست میں ڈال سکتا ہے۔

نکولس کا مزید کہناتھا کہ ماضی میں بھی شمالی کوریا عالمی برادری کو اشتعال دلانے اور پھر انکے ساتھ کام کرنے کی خواہش ظاہر کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے خلاف شدید ردعمل ہی اس کے اس طرز عمل کو روک سکے گا۔

XS
SM
MD
LG