رسائی کے لنکس

کرونا وائرس: صوابی کے ڈاکٹر نے ماسک کے بجائے پلاسٹک بیگ کیوں پہنا؟


پلاسٹک بیگ پہنے ڈاکٹر کی تصوير سوشل ميڈيا پر وائرل ہونے کے بعد لوگوں نے خیبرپختونخوا حکومت کو آڑے ہاتھوں ليا تھا۔
پلاسٹک بیگ پہنے ڈاکٹر کی تصوير سوشل ميڈيا پر وائرل ہونے کے بعد لوگوں نے خیبرپختونخوا حکومت کو آڑے ہاتھوں ليا تھا۔

پاکستان کے صوبے خيبر پختونخوا کے محکمۂ صحت نے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے ايک ڈاکٹر کے خلاف سوشل ميڈيا پر اپنی تصوير شيئر کر کے مبینہ طور پر حکومت کو بدنام کرنے کے اقدام کی تحقيقات کا حکم دے دیا ہے۔

ڈاکٹر عامر علی خان نے ایک مريض کے معائنے کے دوران چہرے پر ماسک کے بجائے پلاسٹک کا بيگ پہنا تھا۔ اس تصوير کے سوشل ميڈيا پر وائرل ہونے کے بعد لوگوں نے صوبائی حکومت کو آڑے ہاتھوں ليا اور زور ديا کہ وہ ڈاکٹروں کو تمام حفاظتی انتظامات مہيا کرے۔

صوبائی محکمہؑ صحت کے ضلعی ہيلتھ آفيسر کليم اللہ خان نے اپنی رپورٹ ميں ڈاکٹر عامر علی خان کے خلاف ہيلتھ کيئر اسٹاف اور صوبائی محکمۂ صحت کو بدنام کرنے کے الزام ميں سخت تاديبی کارروائی کی سفارش کی ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے انکوائری رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر عامر نے صبح کی شفٹ ميں اپنی ڈيوٹی دی ليکن جان بوجھ کر تصاوير لينے اور ويڈيو ريکارڈ کر کے اسے سوشل ميڈيا پر شيئر کرنے کے لیے شام کی شفٹ ميں شريک ہوئے۔

رپورٹ ميں مزيد دعویٰ کيا گيا ہے کہ تصوير ميں نظر آنے والا شخص حقيقی مريض نہيں بلکہ قريبی دکان دار ہے جسے ڈاکٹر نے مريض کے طور پر دکھانے کے لیے بلايا تھا۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکڑ عامر علی خان نے ضلعی حکومت کی رپورٹ کی سختی سے ترديد کی اور بتايا کہ ہفتے کو ضلعی ہيلتھ افسر اپنی ٹيم کے ہمراہ ان کے پاس آئے اور انہيں اپنے سابقہ بيان سے پيچھے ہٹنے پر من پسند کی پوسٹنگ آفر کی۔

صوابی اسپتال
صوابی اسپتال

اُن کے بقول، انہوں نے ہيلتھ افسر پر يہ واضح کيا کہ اُن کا يہ اقدام حکومت کو بدنام کرنے کی غرض سے قطعی نہيں تھا۔

ڈاکٹر عامر نے مزيد بتايا کہ اسپتال ميں اسٹاف کی کمی کے باعث انہوں نے صبح آٹھ سے رات آٹھ بجے تک مسلسل ڈيوٹی دی۔

اُن کے مطابق تصوير ميں نظر آنے والا مريض قريبی دکان کا مالک ہے اور يہ تصوير انہوں نے ان کی رضامندی سے سوشل ميڈيا پر شيئر کی تھی۔

ڈاکٹر عامر کا مزید کہنا تھا کہ تصویر میں نظر آنے والا دکان دار پہلے بھی ان کے پاس معائنے کے لیے آتا رہا ہے اور اس کا ريکارڈ اُن کے پاس موجود ہے۔

اسپتال عملے کے ايک فرد نے وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے بتايا کہ سوشل ميڈيا پر تصوير آنے سے قبل اسپتال ميں ماسک اور دیگر حفاظتی سامان کی سہولت موجود نہيں تھی اور جو 300 گلوز اور 150 نارمل ماسک فراہم کیے گئے تھے وہ بھی ختم ہو گئے ہيں۔

صوبہ خيبر پختونخوا کے وزير صحت تيمور سليم جھگڑا نے سوشل ميڈيا پر ايک پيغام کے ذريعے واضح کيا ہے کہ انہوں نے موجودہ حالات کے پيش نظر ڈاکٹر عامر کے خلاف کارروائی روک دی ہے، موجودہ حالات ميں حکومت کو ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان ميں کرونا وائرس کے 1500 سے زائد کيسز سامنے آ چکے ہيں اور اب تک 14 اموات ہو چکی ہيں۔ صرف صوبہؑ خيبر پختونخوا ميں 188 کيسز رپورٹ ہو چکے ہيں۔

کرونا وائرس کے خلاف موؑثر حکمت عملی کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے 1300 مزيد ڈاکٹرز بھرتی کرنے کا بھی فيصلہ کيا ہے۔

XS
SM
MD
LG