رسائی کے لنکس

خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا انتخاب مکمل، کیا عام انتخابات پر اس کا اثر ہوگا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخواہ پاکستان کا پہلا صوبہ ہے جہاں عدالتی احکامات کے تحت تمام 35 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے بعد زیادہ تراضلاع اور تحصلیوں میں منتخب مئیر اور تحصیل چیئرمین عہدے سنبھالنے کے بعد کام شروع کر چکے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا کے 35 اضلاع کی 131 تحصیلوں میں بلدیاتی انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے نامزد کردہ 44 تحصیل چیئرمین منتخب ہوئےجب کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کا دعویٰ ہے کہ اس کے 36 تحصیل چیئرمین کامیاب ہوئے ہیں۔ آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے چار چیئرمین بھی جے یو آئی (ف) میں شامل ہو چکے ہیں جس کے بعد ان کی تعداد 40 بتائی جا رہی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے 9، مسلم لیگ (ن) کے 6، جماعت اسلامی کے 3 ، پاکستان پیپلز پارٹی کے 2،قومی وطن پارٹی، راہِ حق اور جمعیت متحدہ مسلمین کے ایک ایک امیداور کامیاب ہوئے ہیں ۔آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے کئی چیئرمین صوبے کی حکمران جماعت پی ٹی آئی میں شمولیت کا عندیہ دے چکے ہیں۔

انتخابات کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کےاعداد و شمار کے مطابق تحریکِ انصاف نے مجموعی طور پر 17 لاکھ 66 ہزار ، جمعیت علماء اسلام (ف) نے 13 لاکھ 43 ہزار ، آزاد امیدواروں نے 9 لاکھ 71 ہزار، عوامی نیشنل پارٹی نے 7 لاکھ 70 ہزار، مسلم لیگ (ن) 6 لاکھ 27 ہزار، پیپلز پارٹی نے 5 لاکھ 45 ہزار اور جماعت اسلامی نے5 لاکھ 39 ہزار ووٹ حاصل کیے۔

صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے مجموعی نتائج کے مطابق صوبے کی حکمران جماعت کو قریبی حریف جماعت پر چند نشستوں کی برتری حاصل ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) مستقبل میں بھی تحریکِ انصاف سمیت بعض دیگر جماعتوں کے لیے ایک سیاسی چیلنج بن سکتی ہے۔

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی بنیاد پر صوبے میں سیاسی جماعتوں کی سیاسی حیثیت کے بارے میں رائے دینا مناسب نہیں ہے کیوں کہ بلدیاتی الیکشن اور عام انتخابات کی سیاست مختلف ہوتی ہے۔

پشاور سے شائع ہونے والے اردو روزنامے ’آئین‘ کے ایڈیٹر اور سیاسی تجزیہ کار عرفان خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے جنوبی اضلاع میں جمعیت علماء اسلام (ف) کی کامیابی کے امکانات کافی واضح تھے۔ پشاور میں قوم پرست جماعت اے این پی کے امیدواروں کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا تھا، اس کے باوجود پشاور سے بھی جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیدواروں کی کامیابی حیران کن ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع میں بھی جمعیت علماء اسلام(ف) کامیابی حاصل کرکے تحریکِ انصاف سمیت، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے لیے ایک بڑا سیاسی چیلنج بن کر سامنے آئی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات ثمر ہارون بلور نے الزام عائد کیا ہے کہ پشاور شہر کے لیے مئیر اور تحصیل چیئرمینوں کے عہدوں پر کامیاب امیدواروں نے پارٹی یا نظریات کی بنیاد پر کامیابی حاصل نہیں کی۔ ان کی کامیابی میں پیسے کا استعمال بھی ایک اہم وجہ ہے۔ اس کے باوجود پشاور شہر میں کامیاب امیدوارں کی اکثر یت کا تعلق اے این پی سے ہے۔

تجزیہ کار عرفان خان کہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے اثرات مستقبل کی سیاست پر مرتب ہوں گے۔ جب بھی ملک میں عام انتخابات ہو ں گے اس وقت صوبے کے بیشتر اضلاع میں تحریکِ انصاف کا جمعیت علماء اسلام (ف) سے مقابلہ ہوگا۔

سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر خادم حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں لوگ برادری، خاندان، ذاتی دوستی اور تعلقات کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں جب کہ عام انتخابات میں لوگ سیاسی نظریات، پارٹی کے منشور اور امیدوار کی ساکھ کو دیکھ کر ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ہزارہ ڈویژن میں ماضی میں روایتی طور پر مسلم لیگ (ن) مقبول رہی ہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد یہاں پر تحریکِ انصاف کو بھی پذیرائی ملی ہے ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں تر نشستوں پر ان دونوں جماعتوں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔

تجزیہ کار عرفان خان کہتے ہیں کہ ہزارہ ڈویژن کے ضلع بٹگرام، ضلع طورغر اور ضلع مانسہرہ کی بعض نشستوں پر جمعیت علماء اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی ، پیپلز پارٹی اور قومی وطن پارٹی کے مضبوط اور بااثر امیدواروں کی موجودگی بھی تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔

ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں ماضی کے طرح بھی آئندہ عام انتخابات میں ملے جلے نتائج کی توقع کی جا رہی ہے۔ تحریکِ انصاف 2013 سے صوبے میں برسرِ اقتدارہے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد محمود خان کے وزیرِ اعلیٰ بننے پر تحریکِ انصاف نے مالاکنڈ ڈویژن میں مقبولیت حاصل کی ہے ۔

عرفان خان کہتے ہیں کہ سوات کے زیادہ تر حلقوں میں تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)، دیر میں جماعت اسلامی، بونیر میں عوامی نیشنل پارٹی، شانگلہ میں مسلم لیگ (ن) اور اے این پی جب کہ چترال میں جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کا سامنا کرنا ہوگا ۔

خیبرپختونخوا کے سات قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن اور حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تحریکِ انصاف اور جمعیت علماء اسلام (ف) نے زیادہ ترنشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ماضی کی طرح ان قبائلی اضلاع میں انتخابات کے دوران بعض امیدواروں کی جانب سے وسائل کے بے دریغ استعمال کی روایت بھی رہی ہے جب کہ مبصرین کا کہنا ہے کہ کچھ علاقوں اور قبائل کے فیصلوں پر اسٹیبلشمنٹ بھی مبینہ طور پر اثر انداز ہو تی رہی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں جے یو آئی (ف)، کرم میں پیپلز پارٹی ، مہمند میں عوامی نیشنل پارٹی، اورکزئی اور باجوڑ میں تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کو مقبولیت حاصل ہے۔

ضلع خیبر میں تحریکِ انصاف کی پوزیشن کافی بہتر ہے مگر مقامی صحافی ابو ذر آفریدی کے بقول یہاں کے بعض بااثر امیدوار اور خاندان سیاسی وفاداریاں کسی بھی وقت تبدیل کر کے نتائج کو متاثر کرسکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG