رسائی کے لنکس

احتجاج کے بعد سندھ یونیورسٹی کی نوٹی فیکیشن میں ترمیم


سندھ اسمبلی (فائل)
سندھ اسمبلی (فائل)

سندھ یونیورسٹی جامشورو میں اردو کو مبینہ طور پر ’’نظر انداز‘‘ کرنے پر تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ پہلے نوٹی فیکیشن کے مطابق جامعہ میں لگائے جانے والے بورڈ اور عمارتوں پر سندھی اور انگریزی زبان میں عبارت تحریر ہوگی۔ لیکن، اپوزیشن جماعتوں کے شدید احتجاج کے باعث نوٹی فیکیشن واپس لے کر اس میں ترمیم کردی گئی۔

سندھ یونیورسٹی جام شورو کے رجسٹرار کی جانب سے 17 اپریل کو جاری کردہ نوٹی فیکیشن میں کہا گیا تھا کہ یونیورسٹی کی حدود میں عمارتوں کے نام اور سائن بورڈز کے لئے سندھی اور انگریزی زبان کا استعمال کیا جائے۔ نوٹی فیکیشن میں تمام متعلقہ افسران کو اس ہدایت پر عمل یقینی بنانے کو بھی کہا گیا تھا۔

نوٹی فکیشن سامنے آنے پر سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے اسمبلی اجلاس کے دوران اس عمل کی شدید مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اردو کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا جارہا ہے جو پیپلز پارٹی کی حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں کا عکاس ہے‘‘۔

دوسری جانب ایم کیو ایم کے رہنما کنور نوید جمیل نے بھی کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ’’اسے ملک دشمنی اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پالیسیوں کے برخلاف قرار دیا‘‘۔

سندھ یونیورسٹی کے ترجمان نے خبر پر موقف دیتے ہوئے کہا کہ نوٹی فکیشن میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ اردو کا استعمال نہ کیا جائے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر فتح محمد برفت نے بھی اس بارے میں کوئی موقف دینے سے انکار کیا۔

نوٹی فکیشن پر سیاسی جماعتوں اور سوشل میڈیا پر بے پناہ تنقید کے بعد جامعہ انتظامیہ نے 19 اپریل کو اسی نوٹیفکیشن میں ترمیم کردی جس کے مطابق جامعہ میں اور اس کے تمام کیمپسز میں قومی زبان اردو کے ساتھ انگریزی اور سندھی میں بھی سائن بورڈز اور عمارتوں کے نام لکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

سندھ یونیورسٹی جامشورو صوبے کی بڑی سرکاری جامعات میں شمار ہوتی ہے جہاں ہزاروں طلباء زیر تعلیم ہیں۔

صوبہ سندھ میں زبان کے معاملے پر حساسیت پاکستان کے دیگر صوبوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر اور صوبائی دارالحکومت کراچی اور صوبے کا دوسرا شہر حیدرآباد ماضی میں لسانی فسادات کا مرکز رہے ہیں۔

ماضی میں ایسے واقعات بارہا دیکھنے میں آئے جب سندھی اور اردو زبان بولنے والوں کے درمیان نفرتیں مصنوعی طور پر اس حد تک بڑھائی گئیں کہ اس سے فسادات نے جنم لیا اور متعدد افراد اس کا لقمہ بن گئے۔

بیشتر مواقع پر سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس تقسیم کا خوب فائدہ اٹھایا۔

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق انتخابات قریب ہونے پر یہ عمل ووٹرز کو ایک بار پھر لسانی نعروں کے ذریعے اپنی اپنی جماعتوں کے حصار میں لانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔

ایسے ہی واقعات کی روشنی میں یہاں دوسرے صوبے کے قیام کی باتیں کی جاتی رہیں، جبکہ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے صوبے کی تقسیم پر ہمیشہ انتہائی سخت ردعمل سامنے آیا۔

XS
SM
MD
LG