رسائی کے لنکس

صحافیوں کی ملازمت کا تحفظ؛’ قانون سازی پر ٹی وی چینل مالکان مزاحمت کر  سکتے ہیں‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

’’میرے چینل نے بغیر کسی وجہ کے مالی مشکلات کا کہہ کر مجھے نوکری سے نکال دیا۔ تھرڈ پارٹی سے ملنے والا جاب لیٹر میری جیب میں تھا لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کس عدالت میں جاؤں، جہاں میری داد رسی ہو سکے۔‘‘

یہ الفاظ ہیں کئی برس تک ایک نجی ٹی وی چینل میں بطور اسائنمنٹ ایڈیٹر کام کرنے والے وحید(فرضی نام) کے، جو کئی ماہ تک بے روزگار رہنے کے بعد ایک اور چینل میں پہلے سے کم تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔

وحید کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا تیزی سے ترقی تو کر رہا ہے البتہ اس میں کام کرنے والے بیشتر صحافی شدید مالی مشکلات اور ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ ان کے بقول بدقسمتی سے ان کے پاس کوئی فورم نہیں جہاں وہ اپنے قانونی مسائل کو حل کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ امپلی مینٹیشن ٹریبونل فار نیوز پیپر ایمپلائز(آئی ٹی این ای) کا ادارہ موجود ہے لیکن ٹی وی چینل کے ملازم کے طور پر میرا استحقاق نہیں کہ اس ادارے میں جا کر اپنا مقدمہ کرسکوں۔ اکثر یہ ادارہ کیسز لے تو لیتا ہے لیکن معلوم نہیں کہ کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔‘‘

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے افراد کے حوالے سے کوئی واضح قانون نہ ہونے کے باعث اس سے منسلک صحافی انتہائی غیر یقینی س صورت حال ے دو چار رہتے ہیں۔

اسلام آباد میں صحافیوں کے اکثر کیسز لڑنے والے وکیل اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کے حقوق کے لیے رٹ پٹیشن دائر کرنے والے عمر اعجاز گیلانی کہتے ہیں کہ پاکستان میں 1961 میں نیوز پیپر ایمپلائز ایکٹ آیا تھا، جس میں صحافیوں کے لیے ویج بورڈ ایوارڈ سمیت دیگر قانونی حقوق اور آئی ٹی این ای کا ادارہ قائم کیا گیا تھا، جس میں وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکتے تھے۔ اس کے بعد 1975 میں اس قانون میں تبدیلی کی گئی اور اس میں میڈیا ورکرز کو بھی شامل کر لیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سال 2000 میں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا آنے کے بعد سےاب تک اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ اگر قانون سازی ہوئی بھی تو وہ پیمرا کی سطح پر ہے جو الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ہے۔ اس میں شامل صحافیوں کو سہولیات اور حقوق دینے کے لیے کوئی فورم دستیاب نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارتِ اطلاعات میں ہم نے جو مسودہ جمع کرایا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ نیوز پیپر ایمپلائز ایکٹ میں ترمیم کرکے میڈیا کا لفظ شامل کیا جائے تاکہ اخبارات کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے افراد شامل ہوسکیں۔

نیوزپیپر ایمپلائز ایکٹ میں صحافیوں کے حقوق کیا ہیں؟

عمر گیلانی کا کہنا تھا کہ اس قانون کے تحت صحافیوں کو ویج بورڈ ایوارڈ کا حق دیا گیا تھا جس کے تحت ایک مخصوص مدت کے بعد ان کی تنخواہوں میں اضافہ ضروری تھا۔ اس پر اگرچہ مکمل عمل در آمد نہیں ہو سکا لیکن قانون ضرور ہے۔

ان کے مطابق دوسرا حق ان کی ملازمت کی سیکیورٹی کا تھا۔ انہیں بغیر وجوہات کے ملازمتوں سے نہیں نکالا جاسکتا۔ اس کے علاوہ میڈیکل، پرویڈونٹ فنڈ اور لیبر لاز کے مطابق ملنے والی دیگر مراعات دی جاتی تھیں البتہ الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کے لیے ایسی کسی چیز کا تصور نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو ویج بورڈ ایوارڈ سمیت دیگر مراعات و حقوق دلوانے کے لیے وزارتِ اطلاعات و نشریات کو قانون سازی کا مسودہ فراہم کیا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون سازی کے حوالے سے سیکریٹری اطلاعات اور سیکریٹری قانون کو چھ فروری کو عدالت میں طلب بھی کر لیا ہے۔

قبل ازیں جب صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کے لیے قانون سازی کی درخواست پر سماعت ہوئی تو چیف جسٹس عامر فاروق نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اوراسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی ۔

اس موقع پر سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر بطور عدالتی معاون موجود تھے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے عمر اعجاز گیلانی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے ۔

صحافیوں کے وکیل عمر اعجاز گیلانی نے عدالت کو قانون سازی کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ وزارتِ اطلاعات کو ترمیمی بل کا مجوزہ ڈرافٹ تیار کرکے ارسال کر دیا گیا ہے۔

عدالت کے معاون حامد میر نے آگاہ کیا کہ اکثر صحافیوں کے پاس تو تحریری طور پر بھی ملازمت کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ پیمرا کو قانون میں اختیار دیا گیا ہے کہ وہ صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ چیف جسٹس نے پیمرا سے تجویز بھی مانگی تھی۔ پیمرا آرڈی نینس کے پری ایمبل میں لکھا ہوا ہے کہ وہ تحفظ دیں گے۔

اس پر پیمرا کے وکیل نے کہا کہ اگر قانون سازی کے بعد پیمرا کو یہ اختیار دیا جائے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔

بعد ازاں عدالت نے سیکریٹری قانون اور سیکریٹری اطلاعات کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چھ فروری کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا۔

’الیکٹرانک میڈیا میں اکثر صحافیوں کو کنٹریکٹ نہیں دیا جاتا‘

سینئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا میں اکثر صحافیوں کو کنٹریکٹ نہیں دیا جاتا اور جن کو دیا گیا ہے ان میں سے بھی بیشتر کے کنٹریکٹ ختم ہوچکے ہیں اور انہیں مزید نہیں بڑھایا جارہا جب کسی صحافی کو نکالنا ہوتا ہے اس کے سامنے استعفیٰ یا پھر ٹرمنیشن کا لیٹر رکھ کر اسے ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں الگ سے قانون کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ان کی ملازمتوں اور حقوق کا تحفظ ہوسکے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حامد میر کا کہنا تھا کہ اس وقت اخبارات میں کام کرنے والے صحافیوں کی تعداد الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں سے کہیں کم ہے لیکن ان کے لیے قانون موجود ہے اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے میں ٹی وی چینل مالکان مزاحمت کر سکتے ہیں البتہ پیمرا کی طرف سے لائسنس دینے کے معاملے میں ملازمین کے حقوق کے تحفظ کا کہا گیا ہے، آج تک مالکان کے دباؤ کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

’صحافیوں کو حقوق دینے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ نہیں ہے‘

اس پٹیشن میں مدعی اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے سابق صدر اویس یوسف زئی نے کہا کہ صحافیوں پر پابندیوں کی تو ہر کوئی بات کرتا ہے لیکن انہیں حقوق دینے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔ ہزاروں صحافی اس وقت الیکٹرانک میڈیا پر کام کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے کوئی فورم ہی نہیں، جہاں وہ جا کر اپنی فریاد کر سکیں۔

اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے صدر انور رضا نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانون نہ ہونے کی وجہ سے الیکٹرانک میڈیا کے صحافی شدید مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ اگرچہ اخبار کے ورکرز کے بھی حالات ایسے ہی ہیں، جہاں انہیں تھرڈ پارٹی کے ذریعے ملازمت کے لیٹر دیے جاتے ہیں اور اس کے بعد وہ تھرڈ پارٹی آئی ٹی این ای یا عدالتوں میں لڑنے کو تیار ہوتی ہے اور اخبار یا چینل کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بارے میں وزارتِ اطلاعات کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ جلد سے جلد اس بارے میں قانون بنے تاکہ ہمارے صحافی ساتھیوں کو کوئی بلاجواز ملازمتوں سے نکال کر بے روزگار نہ کرے۔

XS
SM
MD
LG