رسائی کے لنکس

زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست مسترد


لاہور ہائی کورٹ نے منگل کے روز ضلع قصور کی سات سالہ لڑکی زینب سے جنسی زیادتی اور قتل کے مجرم عمران علی کو سر عام پھانسی دینے کی درخواست مسترد کردی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں دائر یہ درخواست زینب کے والد امین انصاری نے دی تھی۔

اس کی سماعت لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس سردار شمیم احمد خان اور جسٹس شہباز علی رضوی پر مشتمل دو رکنی نے بینچ نے کی۔ دوران سماعت زینب کے والد امین انصاری کے وکیل اشفاق چوہدری نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 22 کے تحت کسی بھی مجرم کو عوامی مقامات پر پھانسی دی جا سکتی ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ ’جيل مينوئل‘ سرعام پھانسی کی اجازت نہيں ديتے۔ سپريم کورٹ بھی ماضی ميں اسی نوعيت کي درخواست مسترد کرچکی ہے۔

احمد اویس نے عدالت میں کہا کہ عمران کو کل صبح پھانسی دی جانی ہے اور حکومت اتنی جلدی سرعام پھانسی کے انتظامات نہیں کر سکتی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے سیکشن بائیس کے تحت سر عام پھانسی دینے کا اختیار حکومت کا ہے۔ عدالت نے مجرم عمران کو سرعام پھانسی دینے سے متعلق مقتولہ زینب کے والد کی استدعا مسترد کر دی۔

کیس کی سماعت کے بعد، زینب کے والد امین انصاری نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سر عام پھانسی دینے سے مستقبل میں ایسے جرائم کو روکنے میں مدد ملے گی۔

بقول اُن کے، "ہم یہ چاہتے ہیں کہ میری بیٹی کے قاتل کو سر عام پھانسی دی جائے تاکہ آئندہ کوئی زینب نہ بن سکے۔ سرعام پھانسی دینے سے جرائم پیشہ افراد کے دل میں ڈر بیٹھے گا اور وہ ایسا گھناؤنا جرم کرنے کا سوچیں گے بھی نہیں

سات سالہ بچی زینب کو رواں برس چار جنوری کو صوبہٴ پنجاب کے ضلع قصور سے اغوا کیا گیا تھا۔ نو جنوری کو اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی تھی، پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ثابت ہوا کہ زینب کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد پاکستان بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے ہوئے، جس کے دوران پولیس فائرنگ سے دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

زینب قتل کیس اور پرتشدد واقعات پر چیف جسٹس آف پاکستان نے از خود نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو قاتل کی جلد گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

پولیس نے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی مدد سے مشتبہ افراد کے ڈی این اے لیے اور تفتیش شروع کر دی۔ دوران تفتیشن انکشاف ہوا کہ قصور میں دیگر سات بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والا ایک ہی شخص ہے۔ واقعہ کے چند روز بعد ہی پنجاب پولیس نے فرانزک شواہد کی مدد سے ملزم عمران علی کو گرفتار کر لیا۔ ملزم عمران کا کیس انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں چلایا گیا، جسے ملکی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل کہا گیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 17 فروری سنہ 2018ء کو سات سالہ زینب سے زیادتی و قتل کے مجرم عمران کو چار بار سزائے موت سنائی تھی۔

مجرم عمران کو کُل چھ الزامات کے تحت سزائیں سنائی گئی تھیں۔ جن میں زینب کے اغوا، جنسی زیادتی، قتل اور لاش کی بے حرمتی سمیت دیگر جرائم میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات کے تحت چار چار مرتبہ سزائے موت اور مجموعی طور پر پچیس لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ مجرم عمران علی دیت کے طور پر بیس لاکھ پچپن ہزار روپے زینب کے خاندان کو بھی ادا کرے۔

عمران علی سے متعلق زیر سماعت دیگر کیسز میں عدالت نے ایک اور معصوم لڑکی کائنات بتول کیس میں مجرم عمران کو تین بار عمر قید اور تئیس سال قید کی سزا سنائی تھی۔ عدالت نے زینب سمیت دیگر سات بچیوں تحمینہ، ایمان فاطمہ، عاصمہ، عائشہ آصف، لائبہ اور نور فاطمہ کے قتل کیس کے فیصلے میں سزا سناتے ہوئے مجرم عمران علی کو مجموعی طور پر اکیس بار سزائے موت کی سزا سنائی تھی۔
مجرم عمران نے اپنی سزا کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی، جسے عدالت نے 20 مارچ 2018ء کو اپیل خارج کر دی تھی۔ بعد ازاں مجرم عمران علی کی جانب سے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے سننے سے انکار کرتے ہوئے درخواست خارج کر دی تھی۔ عمران علی کی سزائے موت کے خلاف معافی کی درخواست صدر پاکستان بھی مسترد کر چکے ہیں۔
زینب کے قاتل کو سزائے موت دینے کے فیصلے پر پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم، ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے چئیرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بطور انسانی حقوق اس فیصلے کے خلاف ہیں، ’’کیونکہ اگر پھانسیاں دینے سے جرائم میں کمی ہوتی تو پاکسان آج جرائم سے پاک ملک ہوتا‘‘۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رواں ماہ 12 اکتوبر 2018ء کو مجرم عمران علی کے ’ڈیتھ وارنٹ‘ جاری کیے تھے۔ ’ڈیتھ وارنٹ‘ کے بعد عدالتی حکم پر مجرم عمران علی کو جیل مینوئل کے مطابق آخری بار اہل خانہ سے آج 16 اکتوبر کو ملوایا گیا۔ مجرم عمران علی کو 17 اکتوبر کی صبح ساڑھے پانچ بجے تختہ دار پر لٹکایا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG